8 فروری کے عام انتخابات کے بعد حکمراں جماعت مسلم لیگ ن پر متعدد الزمات لگائے گئے جن میں سے ایک الزام یہ تھا کہ اس وقت حکومت فارم 45 والی نہیں بلکہ فارم 47 والی ہے، اسی الزام کی بنیاد پر سنی اتحاد کونسل نے ایک بیانیہ بھی بنایا، تاہم 21 اپریل کو منعقدہ ضمنی الیکشن میں ن لیگ نے پنجاب کی حد تک مذکورہ بیانیہ زمین بوس کر دیا ہے۔
ضمنی انتخابات میں ن لیگ قومی اسمبلی کی 2 اور صوبائی اسمبلی کی 10 نشستوں پر کامیاب ہوئی جبکہ تحریک استحکام پارٹی اور مسلم لیگ ق بھی ایک ایک نشست جیتنے میں کامیاب رہیں، جبکہ سنی اتحاد کونسل ایک بھی نشست نہ جیت سکی۔
مزید پڑھیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سنئیر تجزیہ نگار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ن لیگ جن سیٹوں پر کامیاب ہوئی ہے یہ پہلے سے ہی ن لیگ کی تھیں صرف ایک سیٹ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 36 وزیر آباد 2 سے تحریک انصاف کو اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشست پر شکست ہوئی۔
عام انتخابات میں یہ نشست تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد احمد چٹھہ نے جیتی تھی جو انہوں نے چھوڑ دی تھی۔ ’میری نظر میں پاکستان تحریک انصاف جو اب سنی اتحاد کونسل سے رجسٹرڈ ہے اسکا ووٹر اس ضمنی الیکشن میں باہر نہیں نکلا، ان کا ووٹر شاید مایوس ہوگیا ہے کہ 8 فروری کے الیکشن میں ووٹ دے کر کیا ہوگیا جو اب ہوگا۔‘
سلمان غنی کے مطابق پی ٹی آئی اب بھی اسے دھاندلی زدہ الیکشن ہی کہے گی کیوںکہ وہ یہ الیکشن ہار گئی ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے گزشتہ 2 ماہ کے دوران اپنے کارکنوں کو متحرک کیا، جس کا فرق اس ضمنی انتخابات پر بھی پڑا ہے۔
’ابھی یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وزیر اعلی کی گڈ گورننس کی وجہ سے ن لیگ نے یہ ضمنی انتخاب جیتا ہے، انہوں نے اعلانات کافی کیے ہیں، جن پر عمل ہوگا تو ہم کہیں گے کہ مریم نواز کی عوامی خدمت کی وجہ سے ان کی جماعت کو ووٹ پڑا ہے، 2 ماہ کی کارگردگی پر ووٹر ووٹ کا فیصلہ نہیں کرتا۔‘
پی ٹی آئی کا ووٹر باہر نہیں نکلا ؟
وی نیوز سے گفتگو میں سینئر اینکر پرسن منصور علی خان کا کہنا تھا کہ ضمنی الیکشن میں ایک تو پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت نے کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا، ن لیگ اگر یہ سمجھتی ہے کہ 8 فروری کے بعد ان کے حکومتی اقدامات پر انہیں ووٹ ملا ہے تو یہ بھی درست بات نہیں ہے۔
’کسی بھی حکومت کی کارگردگی پر جانچنے کے لیے کم ازکم ایک سال درکار ہوتا ہے، پنجاب میں ن لیگ نے 2 قومی اور 10 صوبائی نشستیں جیتی ہیں تو یہ نشستیں پہلے بھی ن لیگ نے ہی جیتی تھیں، ن لیگ کی پنجاب میں حکومت ہے، ایسے میں تمام حکومتی ذرائع بھی آپ استعمال کرتے ہیں۔‘
منصور علی خان کے مطابق خیبر پختونخوا میں بھی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے حلقے میں ان کے بھائی کو سرکاری مشینری نے سپورٹ کیا، پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بینک کم نہیں ہوا بلکہ جو حالات تھے وہ مختلف ہوگئے ہیں، پی ٹی آئی کے ووٹرز جو رضاکارانہ طور پر 8 فروری کو جوق در جوق نکلے تھے، وہ اس دفعہ نہیں نکلے۔
’8 فروری کو پی ٹی آئی کا ووٹر غصے میں تھا اور وہ احتجاج کا ووٹ ڈالنا چاہ رہا تھا، ووٹ دینے کے باوجود اس کی جماعت کی حکومت نہ بن سکی جس کے باعث ووٹر مایوس ہوگیا، اس وجہ سے پی ٹی آئی کو ضمنی انتخاب میں شکست ہوئی، ن لیگ نے دو ماہ میں ایسا کچھ نہیں کیا جو ان کی کارگردگی دیکھ کر انہیں ووٹ ملے، یہ نشستیں پہلے ہی ن لیگ کی تھیں جنہیں انہوں نے برقرار رکھا ہے۔‘