ایام حیض میں صحت و صفائی کے عالمی دن کے موقع پرعالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یعنی یونیسف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا میں صرف 40 فیصد اسکول ہی طالبات کو ایام حیض کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
’ایسے اسکولوں کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم ہے جہاں لڑکیوں کے واش رومز میں ایام حیض کے حوالے سے خصوصی کوڑے دان رکھے گئے ہیں۔۔۔ ساڑھے 42 کروڑ سے زائد بچیوں کو صحت و صفائی کے حوالے سے اسکولوں میں اپنے لیے مخصوص اور قابل استعمال خدمات تک رسائی میسر نہیں ہے جبکہ 20 فیصد اسکولوں میں ایسی خدمات سرے سے ناپید ہیں۔‘
Women and girls have the right to menstruate with dignity and without feeling fear or shame, during a humanitarian disaster and beyond. Today as we mark #MenstrualHygieneDay we are celebrating a few menstrual health heroes in the #AsiaPacific region who are breaking taboos and… pic.twitter.com/0OhI1vdTzA
— UNFPA Asia and the Pacific (@UNFPAAsiaPac) May 28, 2024
اس دن کی مناسبت سے معروف اداکارہ اور یونیسف کی خیرسگالی سفیر ملی بوبی براؤن نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ حیض پر بات نہ ہونا دنیا بھر کی کروڑوں لڑکیوں کے لیے ناقابل برداشت ہے، وہ ایسی دنیا کا خواب دیکھتی ہیں جہاں ایام حیض لڑکیوں اور خواتین کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکیں۔
’بظاہر صرف جنگ یا قدرتی آفات جیسے حالات میں ہی لڑکیوں کو ایام حیض کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جب پانی دستیاب نہیں ہوتا، بجلی نہیں ہوتی اور تحفظ کا خطرہ رہتا ہے۔ لیکن آج کروڑوں لڑکیوں کو عام حالات میں بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔‘
ایام حیض کی ‘غربت‘
اقوام متحدہ میں خواتین کا ادارہ یعنی یو این ویمن اس دن پر ایام حیض کی ‘غربت’ اور اس کا خاتمہ کرنے کے لیے درکار اقدامات کے بارے میں آگاہی بیدار کر رہا ہے، ادارے نے ایام حیض میں صحت و صفائی کے لیے درکار اشیا و سہولیات اور اس ضمن میں صحت کو برقرار رکھنے کے لیے تعلیم و آگاہی کے فقدان کو ایام حیض کی ’غربت‘ قرار دیا ہے۔
یو این ویمن کے مطابق یہ غربت اس جسمانی کیفیت سے جڑی بدنامی، ایام حیض میں صحت و صفائی کے لیے درکار چیزوں کی بھاری قیمتوں اور پانی و نکاسی آب کی سہولتوں کی کمی سے جنم لیتی ہے۔
’اس غربت سے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے کیونکہ ایام حیض میں بہت سی طالبات کو اپنی ضرورت کی اشیا تک رسائی نہ ہونے کے باعث تعلیمی اداروں سے غیرحاضر رہنا پڑتا ہے۔‘
یواین ویمن کے مطابق اس سے ایسی لڑکیوں اور خواتین کی صحت کو خطرناک اور فوری خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں جنہیں جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا ہو، جو نوعمری میں شادی پر مجبور ہوئی ہوں یا جنہیں جنسی اعضا قطع کیے جانے کے ہولناک تجربے سے گزرنا پڑا ہو۔
ادارے کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں صحت و صفائی کے محفوظ انتظام، ایام حیض میں درکار اشیا کی بلاقیمت اور بڑی تعداد میں فراہمی اور حیض سے وابستہ بدنامی کو ختم کرنے کی پالیسیاں بنانے اور مالی وسائل مختص کرنے سے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔