سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل ہلز سے متعلق کیس میں مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کو عدالتی فیصلے کے بعد ججز کے خلاف پروپیگنڈا کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کی چیئرپرسن کو ہٹانے اور نیشنل پارک وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت سے ’ڈائنو ویلی‘ کے حوالے سے بھی اگلی سماعت پر ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔
سپریم کورٹ نے سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو توہین عدالت کی کاروائی سے بری کرتے ہوئے وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کرلی ہے۔
سیکریٹری کابینہ پر فرد جرم عائد کرنے کا عندیہ
مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکریٹری کابینہ کامران علی افضل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’کیوں نہ آپ پر فرد جرم عائد کریں۔‘
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا مونال سمیت نیشنل پارک میں قائم تمام ریسٹورنٹس بند کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ محکمہ وائلڈ کے نوٹیفکیشن کے پیچھے کون ہے اور کس کے کہنے پر نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
جواب میں سیکریٹری کابینہ کامران علی افضل نے مؤقف اپنایا کہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ کس نے نوٹیفکیشن جاری کیا، محکمہ وائلڈ لائف کی تبدیلی کے احکامات وزیراعظم نے جاری کیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری کابینہ نے بھائی کو بچانے کے لیے الزام وزیراعظم پرعائد کردیا ہے، اور وزیراعظم کو بس کے نیچے دھکا دے دیا ہے۔
’فریقین کی رضامندی سے حکم جاری ہوا پھر پروپیگنڈہ کون کررہا ہے‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مارگلہ ہلز سے متعلق حکم کے بعد سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہوگیا ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فریقین کی رضامندی سے حکم جاری ہوا، پھر پروپیگنڈہ کون کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مارگلہ کی پہاڑیوں پر آتشزدگی: ’جلد ہی یہاں ڈی ایچ اے کا ایک اور فیز شروع ہوجائے گا‘
چیف جسٹس نے سیکریٹری کابینہ سے استفسار کیا کہ ان کے بھائی لقمان علی افضل کدھر ہیں، جس پر سیکریٹری کابینہ کامران علی افضال نے عدالت کو بتایا کہ ان کو نہیں معلوم کے ان کے بھائی کدھر ہیں۔
وکلا کی عدم حاضری پر چیف جسٹس برہم
اس موقع پر چیف جسٹس نے مخدوم علی خان اور سلمان اکرم راجا کی عدم حاضری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سینیئر وکیل حکم امتناع لینے 2 منٹ میں آجاتے ہیں، پھر نظر نہیں آتے۔
چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے کی سرزنش کی اور ان سے اسفسار کیا کہ کیا انہوں نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات دیکھے ہیں، چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے اشتہارات پہلے نہیں دیکھے تھے، جب معاملہ ان کے علم میں آیا تو انہوں نے نوٹس لیا۔
چیئرمین سی ڈی پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کا عندیہ
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ساری شاہراہ دستور پر نجی سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں، چیئرمین سی ڈی اے کب ایکشن لیں گے، کیا جب عوام سوسائٹی سے لٹ جائیں گے پھر سی ڈی اے ایکشن لے گا۔
یہ بھی پڑھیں: گلیات نیشنل پارک میں 2 چیتوں کی ہلاکت معمہ بن گئی
چیئرمین سی ڈی اے نے مؤقف اپنایا کہ نجی ہاوسنگ سوسائٹی خیبر پختونخواہ میں آتی ہے۔
’سی ڈی اے کے افسر نے رابطہ کرکے سوسائٹی کے مالک سے سپانسر مانگا‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کی جائے، اسلام آباد میں کئی جگہوں پر ہاوسنگ سوسائٹی کےاشتہارات لگے ہیں۔
وکیل نجی ہاؤسنگ سوسائٹی نے مؤقف اپنایا کہ ہماری سوسائٹی کے پی کے میں ہے، جس کے درجنوں اشتہارات اسلام آباد میں لگے ہیں، سی ڈی اے کے افسر نے رابطہ کرکے سوسائٹی کے مالک سے سپانسر مانگا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ مارگلہ ہلز میں آپ سوسائٹی کیسے بنا رہے ہیں، سی ڈی اے کے کس افسر نے رابطہ کیا،جواب میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یہ انہیں نہیں معلوم کہ کس سی ڈی اے افسر نے رابطہ کیا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کی اپنی ملکیتی اراضی ہے، جس پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جارہی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملکیتی دستاویزات کدھر ہیں، اپنے موکل کو بلالیں۔
مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک کون ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2018 میں بھی مارگلہ ہلز کا کیس چلا، لوگوں کے لمبے ہاتھوں کی وجہ سے پھر یہ کیس دبا دیا گیا، مارگلہ ہلز کے معاملے پر وزارت داخلہ وزارت کابینہ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور سی ڈی اے ملوث ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مارگلہ ہلز کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لیے بڑی شجرکاری مہم کا آغاز
نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے موکل ڈیڑھ گھنٹے میں عدالت پہنچ جائیں گے، چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ ان کے موکل کا نام کیا ہے، وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل کا نام صدیق انور ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ موکل کا پورا نام بتائیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل کا پورا نام کیپٹن صدیق انور ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے موکل کو بھی توہین عدالت کو نوٹس جاری کریں، آپ کے موکل نے اپنے ایڈریس میں جی ایچ کیو کیوں لکھا، آپ کے موکل نے نام کے ساتھ ریٹائرڈ بھی نہیں لکھا، کیا آپ کو موکل تاثر دے رہا ہے کہ ہاؤسنگ منصوبہ فوج کا ہے۔
190 ملین پاؤنڈ چوری کرنے والے شخص کو واپس کردیے گئے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت کے دوران بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے 190 ملین پاؤنڈز کسی اور کو دے دیے گئے، ایک تو چوری کرو پھر حکومت بھی اس چوری پر پردہ ڈال دیتی ہے، ان 190 ملین پاؤنڈز والوں سے کوئی کیوں نہیں پوچھتا۔
چیف جسٹس کی حکومت نے ریمارکس دیے کہ اس وقت کی حکومت نے برطانیہ سے ملنے والے پیسے طاقتور شخص کو دے دیے، برطانوی حکومت نے پیسے واپس بھجوائے مگر اسی چوری کرنے والے شخص کو واپس کر دیے گئے، شکر ہے کہ بیرون ممالک کی ایسی ایجنسیاں ہیں جو فعال ہیں۔
ججز کو گالیاں دینے کے لیے لوگ کرایے کے بندے رکھ لیتے ہیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ججز کو گالیاں دینے کے لیے لوگ کرایے کے بندے رکھ لیتے ہیں، اگر ہمت ہے تو ہمارے سامنے آکر بولیں ہم جواب دیں گے، میڈیا کے چند افراد کو خرید کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، میڈیا پر بھی ایسی خبر نہیں چلتی کیونکہ ہمارا میڈیا تو آزاد ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزاردت داخلہ کے ماتحت کیوں کیا گیا، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کہ وزیراعظم ہاؤس کو درخواست آئی کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں۔
وزارت تعلیم کو وزارت ریلوے میں ڈال دیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تصوراتی بات لگتی ہے، وزارت ہاؤسنگ سی ڈی اے کے ماتحت ہے، یہ بات سمجھ بھی آتی ہے، پلاننگ اور ہاؤسنگ کا وزارت داخلہ سے کیا تعلق ہے، ہم تو کہہ رہے ہیں سی ڈی اے کو بھی وزارت داخلہ سے نکال دیں، اگر ایسی بات ہے تو وزارت تعلیم کو وزارت ریلوے میں ڈال دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وزارت داخلہ کو نوٹس کریں سارا گند ہی ختم ہو جائے گا، پارلیمان کس لیے ہیں، پارلیمنٹ میں ایسے موضوعات پر بحث کیوں نہیں ہوتی، اگر ایسا ہے تو پارلیمنٹ کو بند کردیں۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کا نہیں آرٹیکل 99 کے تحت رولز آف بزنس بنتے ہیں جس سے معاملات چلائے جاتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات تو کرسکتے ہیں، کوئی طاقتور آیا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا سی ڈی اے کو میری وزارت داخلہ کے انڈر کردیں پلاٹس کے بھی معاملات ہوتے ہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے چیئرمین سی ڈی اے سے استفسار کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے، کیا سی ڈی اے کو وزارت داخلہ کے ماتحت رہنا چاہیے، چیئرمین سی ڈی اے نے مؤقف اپنایا کہ سی ڈی اے کو وزارت داخلہ سے عملدرآمد کرنے کے لیے پاور مل جاتی ہے، پولیس اور انتظامیہ بھی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔
ایف بی آر کو بھی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں
چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا آپ کی طبعیت ٹھیک ہے، آپ اتنے اہل نہیں ہیں کہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروا سکیں، اگر ایسی بات ہے تو ایف بی آر کو بھی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پھر ٹیکس نہ دینے والوں کو پولیس پکڑ لے گی، جرمنی ،فرانس،امریکہ،بھارت سمیت کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہو رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ رولز آف بزنس کے تحت فیڈرل گورنمنٹ ڈویژنز کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کرتی رہتی ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ وزیر اعظم آفس سے بھی زیادہ طاقتور ہے، ہم نے مارگلہ میں کمرشل سرگرمیاں روکنے کا کہا نوٹیفکیشن نکلنے لگے، یہاں کہا جاتا ہے کہ مارگلہ میں پودے لگا رہے ہیں، کوئی آدھے دماغ والا آدمی بھی ایسی بات نہیں بولے گا، جنگل میں پودوں کی افزائش خود ہوا کرتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا 4 دہائی پہلے ایک صاحب آئے اور پیپر میلبری لگاتے رہے، اس سلسلے میں کسی ایکسپرٹ سے پوچھا بھی نہیں گیا ہوگا، مونال کے مالک نے سپریم کورٹ کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا، کہتے ہیں ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے، اپنے کسی اور ریستوران میں انہیں ملازمت دے دیں، لقمان افضل عدالت نہیں آئے، ضرور کسی یوٹیوبر کو انٹرویو دے رہے ہوں گے۔
7 ہزار ماہانہ تنخواہ پر 35 کروڑ روپے کی زمین کیسے خریدی؟
ڈی جی گلیات اور پائن سٹی کے مالک کیپٹن ریٹائرڈ صدیق انور بھی عدالت میں پیش۔ ڈی جی گلیات نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے پائن سٹی کوتعمیرات سے روکا یہ سٹے لے آئے، جس پر چیف جسٹس نے صدیق انور سے استفسار کیا کہ آپ وہاں کیاں بنانا چاہتے ہیں۔ کیپٹین ریٹائرڈ صدیق انور نے جواب دیا، ’مجھے معاف کردیں، میں کچھ نہیں بناؤں گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کیا اب بھی فوج میں ہیں، نام کیساتھ ریٹائر لکھا کیوں نہیں۔ صدیق انور نے جواب میں کہا کہ میں 1999 میں ریٹائر ہوگیا تھا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پائن سٹی کے ساتھ آپ کا ایڈریس جی ایچ کیو کا کیوں ہے، جس پر صدیق انور نے عدالت کو بتایا کہ جب یہ رجسٹر کروایا تب ایڈریس یہی تھا۔
چیف جسٹس نے صدیق انور سے مزید سوال کیے کہ کیا آپ سروس میں ہوتے ہوئے بزنس کرسکتے تھے، جب آپ ریٹائر ہوئے آپ کی تنخواہ کیا تھی۔ صدیق انور نے جواب دیا کہ اس وقت کم تنخواہیں تھی، میری تنخواہ 7 ہزار روپے تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا 7 ہزار کی تنخواہ پر آپ نے 35 کروڑ کی زمین کیسے خریدی، جس پر صدیق انور نے جواب دیا، ’میں نے گاؤں کی زمین بیچی تھی، پھر یہ زمین نواب آف خان پور سے خریدی تھی، مارگلہ پہاڑ بھی نواب آف خان پور کے تھے۔
آپ فوجی ہیں، کس طرح کی بات کررہے ہیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ پہاڑ اللہ کے نہیں۔ صدیق انور بولے کہ اللہ نے ہی انہیں دیے تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فوجی ہیں کس طرح کی بات کررہے ہیں، آپ مارگلہ کو تباہ کررہے ہیں۔ صدیق انور بولے میں تو مارگلہ کو بنا رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بنا قدرت نے دیا ہے آپ اسے چھوڑ دیں۔ صدیق انور نے کہا چھوڑ دیتا ہوں، میں صرف نیچر ایڈونچر پارک بنانا چاہتا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پائن سٹی نام سے تو لگتا ہے یہ رہائشی منصوبہ ہے۔ صدیق انور بولے کہ میں نے اس نام سے نقصان اٹھایا ہے، سوچتا ہوں نام بدل دوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نام نہیں کام ہی بدل دیں، یہاں تعمیرات نہیں ہوسکتیں۔ صدیق انور نے کہا کہ میں نے وہاں نئے درخت بھی لگائے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ آپ کا صدقہ جاریہ رہے گا ثواب آپ کو ملے گا۔
مارگلہ میں تعمیرات نہیں ہوسکتیں، یہ ہمارا فیصلہ ہے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیشنل پارک میں تعمیرات نہیں ہوسکتیں ہمارا فیصلہ ہے۔ صدیق انور نے کہا کہ میں نیشنل پارک میں نہیں ہوں یہ میری ملکیتی زمین ہے، جس پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ آپ ملکیت رکھیں مگر اس پر تعمیرات نہیں کرسکتے۔ اس موقع پر شاہ خور ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ اپنی زمین پر قانونی کاروبار ہو سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اپنا پلاٹ بھی ہو سی ڈی اے باونڈری وال کے اندر تو ایک حد تک آپ کو تعمیرات نہیں کرنے دیتا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ لقمان علی افضل بتائیں کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، بادی النظر میں لقمان علی افضل نے توہین عدالت کی ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق، لقمان علی افضل نے مارگلہ ہلز سے ریسٹورنٹ ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، انہوں نے عدالتی فیصلے کے بعد ججز کے خلاف پروپیگنڈا کیا، لقمان علی افضل میڈیا پر توہین عدالت کا مرتکب ہورہا ہے۔ عدالت نے سماعت 2 ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت سے ’ڈائنو ویلی‘ کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ نے سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو توہین عدالت کی کاروائی سے بری کرتے ہوئے وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ تحریری طور پر بتایا جائے کہ وائلڈ لائف وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کے پیچھے کیا سوچ تھی۔
عدالتی حکمنامے کے مطابق، بظاہر وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کو منتقل کرنے میں قواعد کو نظرانداز کیا گیا، کسی حکومتی ڈویژن میں تبدیلی قانون کے مطابق تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد ہونی چاہیے، اٹارنی جنرل کے مطابق وائلڈ لائف کی منتقلی اور چیئرپرسن کو ہٹانے کے نوٹیفکیشن واپس ہوچکے ہیں۔