چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور حالیہ عدالتی بحران

بدھ 25 ستمبر 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اچھے نام بھی گزرے ہیں جو آئین اور قانون کو ہمیشہ مقدم گردانتے ہیں اور ایسے لوگ بھی اہم عدالتی عہدوں پر فائز رہے جنہوں نے نظریہ ضرورت اور سیاسی مصلحتوں کو ہی ہمیشہ توجیح دی اور آمریت کو قانونی سہارا دیا۔ وطن عزیز میں بڑے بڑے عدالتی بحران آئے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب ججز نے آئین اور قانون کو ہی مقدم جانتے ہوئے فیصلے دیے ان کا نام سنہری حروف میں لکھا گیا۔

موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس لیگیسی پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ان کے خلاف پچھلے کئی ماہ سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا لیکن جب ان کے فیصلوں کو مستقبل میں پرکھا جائے گا تو پھر تاریخ ہی فیصلہ کرے گی کہ وہ کیسی legacy چھوڑ کر گئے۔ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عدالتی فیصلہ کسی ایک فریق کے حق میں اور دوسرے فریق کے خلاف ہوتا ہے۔ لیکن عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جس فریق کے خلاف فیصلہ ہو وہ مقدمے کی میرٹ اور قانون پر بات کرنے کی بجائے جج کو ہی کوستا ہے اور یہی کچھ موجودہ چیف جسٹس کے خلاف بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس بات کا تعین کیے بغیر کہ آیا ان کے دیے گئے فیصلوں میں کوئی آئینی یا قانونی پہلوؤں بارے سقم بھی ہیں یا نہیں۔ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ عدلیہ میں اپوائنٹ بھی براہ راست چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ ہوئے تھے اور اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم اور حکومت کی ناکامی

پاکستان کی تاریخ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے جج نہیں جو براہ راست کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ اس سے پہلے جسٹس منظور قادر بھی براہ راست ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ کے براہ راست چیف جسٹس تعینات ہوئے تھے۔ جسٹس منظور قادر کا اگر آپ پس منظر جانتے ہوں تو وہ ایوب خان کے دور میں سنہ 1958 سے سنہ 1962 تک پاکستان کے وزیرخارجہ رہے ہیں۔ وہ سنہ 1962 کے آئین پاکستان بنانے والوں میں بھی روح رواں تھے اور بڑی اچھی شہرت کے آئینی و قانون ماہر سمجھے جاتے تھے۔

انہوں نے وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور ایوب خان کے کہنے پر ہی چیف جسٹس آف ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ کا عہدہ قبول کیا۔ ان کی integrity کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب وہ بطور چیف جسٹس ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ کا چارج لینے آئے تو نہ صرف تمام ججز نے ان کا بھرپور استقبال کیا بلکہ پہلے سے موجود ججز صاحبان نے ان کے ماتحت کام کرنے کو اپنے لیے باعث فخر قرار دیا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ زیادہ عرصہ اس عہدے پر قائم نہ رہ سکے کیونکہ ایوب خان نے ان کے ہی بنائے گئے آئین میں چھیڑ چھاڑ شروع کردی تھی اس لیے وہ عزت سے اپنی صحت کا بہانہ بنا کر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ جسٹس منظور قادر کی طرح اور بھی کئی ایسے جج ہماری تاریخ میں گزرے ہیں جن کا نام آج بھی سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک سیاسی جماعت ایک عرصے سے الزامات لگاتی آئی ہے اور ان کو ایک جانبدار جج ڈیکلئیر کرکے بیشتر مرتبہ ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا رہا۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام الزامات ابھی تک مفروضوں کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں ابھی تک نہ ہی کوئی آئینی ترمیم آئی ہے اور نہ ہی توسیع کے حوالے سے ایسے کوئی شواہد سامنے آئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ایک اور اعتراض یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جس کا وہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے اپنے اختیارات نیچے 2 اور ججز میں تفویض کردیے۔ اب اپنے اسی فیصلے پر یوٹرن لے کر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے انہوں نے دوسرے نمبر پر سینیئر موسٹ جج کو کمیٹی سے نکال کر ایک چوتھے یا 5ویں نمبر والے جج کو اس کا رکن بنا دیا ہے جو کہ عدالت عظمیٰ کے بینچ بنانے کے حوالے سے فیصلہ کرتی ہے۔

اس الزام کا اگر غیرجانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ قوانین اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ اداروں کے فنکشنز کو ریگولیٹ کیا جاسکے نہ کہ قانون کے ذریعے اسے ناکارہ بنایا جائے۔ تاہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ایک نقص سامنے آیا کہ بینچ بنانے کے لیے 3 رکنی کمیٹی میں اگر کوئی بندہ غیر حاضر ہو تو اس کا متبادل کون ہوگا اس بارے وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ جلد بازی میں جب کوئی قوانین بنائے جاتے ہیں تو اکثر اس طرح کے کوئی نقائص سامنے آتے ہیں کیونکہ اس قانون کے ہر پہلو پر غور نہیں کیا ہوتا۔ یہی پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے معاملے میں بھی سامنے آیا۔

مزید پڑھیے: ن لیگ کے چالاک سیاستدان

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو تقریباً ایک ماہ بعد ریٹائر ہوجانا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کمیٹی کے کسی ایک رکن نے کسی نہ کسی وجہ سے میٹنگز سے غیر حاضر ہونا شروع کردیا۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ ایک چیف جسٹس کو جس کی ابھی معیاد ایک مہینہ رہتی ہے عملی طور پر ناکارہ بنادیا جائے کیونکہ نہ وہ کوئی بینچ بناسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور اہم ایڈمنسٹریٹو کام کرسکتا ہے کیونکہ کمیٹی جسے منظوری دینی ہے وہ ہی پوری نہیں۔ گویا اس طرح عملاً جانے والے چیف جسٹس کی اتھارٹی کو نہ صرف undermine کیا جارہا ہے بلکہ ان کے اختیارات کو بھی چیلنج کیا جارہا ہے۔ اب ریاست سپریم کورٹ جیسے اہم ستون کو ایک ماہ کے لیے عملی طور پر ناکارہ تو نہیں رہنے دے سکتی۔ اس لیے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس اہم قانونی سقم کو دور کیا گیا ہے تاکہ عدالت اعظمی اپنا کام جاری رکھ سکے۔

مزید پڑھیں: این آر او دینے سے لینے تک کا سفر

اس قانونی سقم کے دور ہونے سے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہی فائدہ نہیں بلکہ آنے والے چیف جسٹسز بھی مستفید ہوں گے۔ بہرحال جب ان الزامات کی دھول اور گرد بیٹھے گی تو تب تاریخ فیصلہ کرے گی کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ موجودہ دور کے ایک بہترین جج اور چیف جسٹس آف پاکستان رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ نظریہ ضرورت اور سیاسی مصلحتوں کی بجائے آئین اور قانون کو مقدم رکھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp