ویسے تو پورا صوبہ بلوچستان پھلوں اور خشک میوہ جات کے لیے مشہور ہے جس کی وجہ سے اسے پھلوں کی ٹھوکری بھی کہا جاتا ہے لیکن اس میں ضلع لورالائی خاص طور پر سیب، انار، خوبانی اور کئی اقسام کے بادام کی پیداوار کے لیے خاص شہرت رکھتا ہے۔
لیکن گزشتہ چند برسوں سے لورالائی میں زرعی رجحان تبدیل ہو رہا ہے اور یہاں کے باغبان اپنے باغات ختم کر کے گوبھی اگانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک درخت پر 22 پھل، قدرت کا کرشمہ یا پیوندکاری کا شاہکار؟
ایک وقت تھا کہ 28 سالہ محمد امین کے باغات بادام، خوبانی اور سیب سے لدے ہوتے تھے لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے پھلدار درختوں کو بیماری لگ گئی جس کی وجہ سے انہیں زیادہ تر درخت کاٹنے پڑگئے۔ اب محمد امین اپنے باغات کی زمینوں میں گوبھی کاشت کرتے ہیں۔
محمد امین نے وی نیوز کو بتایا کہ باغات سال میں ایک دفعہ پھل دیتے ہیں جبکہ گوبھی کی فصل سال میں 2 سے 3 مرتبہ ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں باغبان پھلوں سے سال میں 8 سے 10 لاکھ روپے کماتے تھے وہیں اب وہ گوبھی اگا کر سالانہ 20 سے 30 لاکھ روپے تک کما رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ لورالائی کے باغبان اب پھلدار درخت کاٹ کر ان کی جگہ گوبھی کاشت کر رہے ہیں جس کی فصل تقریباً 3 مہینوں کے اندر تیار ہو جاتی ہے اور پھلوں کی نسبت 3 گنا زیادہ منافع دیتی ہے۔
مزید پڑھیے: ہاتھوں سے محروم بلوچستان کے ادیب جنہوں نے پاؤں سے 19 کتابیں لکھیں
محمد امین کہتے ہیں کہ لورالائی میں اب تقریباً 90 فیصد باغبان گوبھی کے کاشتکار بن چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ 2 سے 3 فیصد دھنیا جبکہ اتنی ہی شملہ مرچ اور ٹماٹر کی فصل کاشت کی جا رہی ہے۔
پھل اور گوبھی ایک ساتھ کیوں نہیں؟
ایک سوال کے جواب میں محمد امین نے بتایا کہ گوبھی اور پھلدار درخت ایک ساتھ نہیں اگائے جاسکتے کیونکہ گوبھی کی فصل کے لیے دھوپ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اگر اسے درختوں کے درمیان اگایا جائے تو اس کا پھول نکلنے میں زیادہ وقت لگ جاتا ہے جبکہ اکثر اوقات درختوں کے سائے کی وجہ سے گوبھی کی فصل پروان چڑھتی ہی نہیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں کون کون سے سیاحتی مقامات موسم گرما میں گھومے جاسکتے ہیں؟
محمد امین کے بقول گوبھی کی فصل کو درختوں کے مقابلے میں زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے وہ شمسی توانائی کے ذریعے زیر زمین پانی نکالتے ہیں اور فصل کو سیراب کرتے ہیں۔
محکمہ آبپاشی بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے 20 اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح اوسطاً 400 فٹ نیچے ہے اور یہ سطح دن بہ دن نیچے جا رہی ہے۔