حاسدینِ اسٹیبلشمنٹ کہہ رہے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم منظور کر کے پارلیمنٹ خود اپنے گلے پر چھری پھیر دے گی۔ جو لوگ آج اصلاحات کے نام پر عدلیہ کو بے دست و پا بنانے کے لیے جانے کس کے مشورے پر اتاولے ہو رہے ہیں کل جب اقتدار کے ایوانوں سے نکالے جانے کے بعد سڑک پر ہوں گے تو کس عدالت کے سامنے ’ہمارے ساتھ پھر ظلم ہو گیا‘ کی دہائی دیں گے؟
اگر پارلیمنٹ بتدریج بے دست و پا کر دی گئی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ جو ایک آدھ نیم خود مختار ادارہ بچ گیا ہے اس پر بھی یہ کہتے ہوئے لپک پڑیں کہ ’میرا کج نہیں بچیا تے تیرا وی ککھ نہیں رہن دینا‘۔
مقننہ ہو کہ عدلیہ دونوں کی خودمختاری اگر برقرار رہتی ہے تو اس لیے نہیں کہ دونوں اداروں میں سب کے سب ٹارزن یا رستمِ زمان ہوتے ہیں۔بلکہ ہر ادارے میں چند سرپھرے چند اصولوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور چوری کھانے والے مجنوں یہ کہہ کے ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ ’قدم بڑھاؤ خیر دین ہم تمہارے ساتھ ہیں‘۔ وہ الگ بات کہ خودمختاری کے دسترخوان پر یہ مجنوں بھی اپنا اپنا لیموں نچوڑ کے برابر کے شریک ہو جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ نے دراصل اپنے گلے پر پہلی بار ستمبر سنہ 1955 میں چھری پھیری تھی جب مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو غلام محمد۔ دولتانہ اسکیم کے تحت مدغم کر کے مغربی پاکستان بنا دیا گیا تاکہ مشرقی بنگال عرف مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کا توڑ ففٹی ففٹی کر کے نکالا جائے۔ تب مشرقی پاکستان نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی 56 فیصد اکثریت کو 50 فیصد فرض کرکے مغربی پاکستان کی 44 فیصد اکثریت کو اپنے برابر فرض کر کے سب سے بڑی سیاسی قربانی دی۔
یہ بھی پڑھیں: مجھے بھی شرمندہ کریں نا!
تب یہ سہانا سپنا دکھایا گیا کہ 5 کے بجائے 2 صوبے ہوں گے تو انتظامی اخراجات میں کمی ہو گی اور یہ پیسہ پسماندہ علاقوں کی ترقی پر صرف ہو گا۔ صوبائی تعصب کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور دونوں انتظامی بازو اپنے فیصلوں میں زیادہ خود مختار ہوں گے۔
مگر ان میں سے کوئی سپنا پورا نہیں ہوا۔ الٹا بدظنی، مرکز پرستی اور بالائے آئین سیاسی جبر بڑھتا چلا گیا اور پھر اسی ذہین اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھوں 15 برس بعد ( یکم جولائی 1970) ون یونٹ توڑ کے صوبے بحال کر دیے مگر تب تک بدگمانی اتنی جڑ پکڑ چکی تھی کہ اس فیصلے کی واپسی بھی ملک کو سالم نہ رکھ سکی۔
پارلیمنٹ نے تو خود پر ون یونٹ کی چھری پھیر لی مگر اس سے بھی پہلے عدلیہ نے اپنے ایک فیصلے کے خنجر سے ہاراکاری کر لی۔
ہوا یوں کہ جب گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر 1954 میں اچانک مجلسِ قانون ساز برخواست کر دی تو اسپیکر مولوی تمیز الدین نے اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں غیر اعلانیہ نظربند کر دیا گیا۔ مگر وہ برقع پہن کے گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کے رکشہ میں بیٹھ کے عدالت جا پہنچے جہاں ان کے وکیل منظر عالم کو پہلے ہی حراست میں لیا جا چکا تھا۔ مگر رجسٹرار نے مولوی صاحب سے درخواست لے لی اور چیف جسٹس سر جارج کانسٹنٹین کو بھی اطلاع دے دی۔ چنانچہ چیف جسٹس کی مداخلت پر وکیل کو اسپیشل برانچ کے چنگل سے رہائی ملی اور سماعت کے لیے درخواست بھی منظور کر لی گئی۔
مزید پڑھیے: فول پروف ٹیکنالوجی ایک جھانسہ
مصنف اور بلاگر وسیم الطاف کے بقول مولوی تمیز الدین کے پاس چوٹی کے وکلا کو دینے کے لیے ٹکہ بھی نہیں تھا۔ انگریز وکیل ڈی ایم کی فیس اور طعام و قیام کے اخراجات روشن علی بھیم جی نے برداشت کیے۔ جبکہ ٹیم میں شامل معاون وکلا نے کوئی پیسہ نہیں لیا۔ فروری 1955 میں سندھ ہائی کورٹ کے فل بنچ نے متفقہ طور پر گورنر جنرل کے اقدام کو کالعدم قرار دے کر مجلسِ قانون ساز کی بحالی کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ میں سرکار کی جانب سے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر ہوئی۔ چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں جسٹس ابو صالح، جسٹس محمد اکرم، جسٹس محمد شریف اور جسٹس ایس اے رحمان اور جسٹس اے آر کارنیلیس پر مشتمل فل بینچ نے مئی 1955میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کثرتِ رائے سے الٹ کے گورنر جنرل کی جانب سے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ جائز قرار دے دیا۔ جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں ایک جگہ لکھا کہ ’بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی اچانک سیاسی تبدیلی آئین اور نافذ قانونی ڈھانچے کو تلپٹ کر دیتی ہے۔ ایسی تبدیلی کو انقلاب کہاجاتا ہے جو آئین اور قومی قانونی ڈھانچے کو ختم کر کے خود کو جائز بنا لیتا ہے‘۔
صرف جسٹس کارنیلیس نے اس فیصلے پر اپنے اختلافی نوٹ میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو جائز قرار دیا۔
مزید پڑھیں: فن پاروں کی چوری خوش آئند ہے
جسٹس منیر کے فیصلے کی بوتل سے نظریہ ضرورت کا جن نکلا جس نے ہر آمر کو انقلابی کا روپ دھار کے عدلیہ سمیت آئینی اداروں کو تلپٹ کرنے کے لیے الہ دین کا چراغ تھما دیا۔ جب ایک بار فصیل میں شگاف پڑ جائے تو پھر اندر سے بھی کچھ لوگ ایسے مل ہی جاتے ہیں جو ہر فاتح کو پھولوں سے لاد کے چند ٹچی مراعات کے عوض یا دھونس اور دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے ادارہ جاتی خود مختاری کو طالع آزمائی کی قربان گاہ پر رکھ دیتے ہیں۔
لہٰذا جو کچھ بھی آج تک دیکھنے میں آ رہا ہے وہ اچانک سے آسمان ٹوٹنے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا شجرہ پرکھوں سے چلا آ رہا ہے جسے ہر آنے والی کاسہ لیس پیڑھی مزید کلی پھندنے لگا کے اگلی پیڑھی کے حوالے کر رہی ہے۔
یقیناً اس بے ہنگم سرکس پر کچھ آنسو بہانے والے بھی نظر آ جاتے ہیں۔ مگر کل کے برعکس آج تو یہ بھی نہیں پتا چل پاتا کہ ان میں سے کس کے آنسو اصلی ہیں اور کون کون مگر مچھ ہے؟
یہ عبارت کہ جو بے زیر و زبر لکھی گئی
وہی سمجھیں گے کہ جو زیر و زبر جانتے ہیں (احمد نوید)