انسداد دہشتگردی عدالت کراچی میں پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل کیس کی سماعت کے دوران لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ نے پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل سے انکار کردیا ہے، عدالت نے عزیر بلوچ اور مقدمے میں نامزد رینجرز اہلکار سمیت 3 ملزمان کے بیانات قلمبند کردیے ہیں۔
عدالت نے آج کی سماعت کے دوران عزیر جان بلوچ سے استفسار کیا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپ نے مقتول کو قتل کیا؟ جس پر عزیر بلوچ نے بیان دیا کہ میں کلمہ پڑھ کر اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے قتل نہیں کیا، میرا اس قتل اور مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھے جھوٹے الزامات میں پھنسایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار عزیربلوچ 39ویں کیس میں بھی بری
عدالت نے عزیر بلوچ سے استفسار کیا کہ پولیس کے مطابق رینجرز اہلکار سمیت دیگر 2 ملزمان نے مقتولین کو اغوا کرکے آپ کے حوالے کیا اور آپ نے قتل کیا؟
عزیر بلوچ نے بیان دیا کہ میں ان دونوں ملزمان کو نہیں جانتا، میں نے انہیں عدالت میں ہی پہلی بار دیکھا تھا، میرا ان دونوں ملزمان سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
عدالت نے ملزمان شیر افسر اور ریاض سرور کے بیانات بھی ریکارڈ کیے، ان کا کہنا تھا کہ ہم مرنے والے کسی فرد کو نہیں جانتے اور نہ ہی ہم نے انہیں اغوا کیا تھا ، ہم پر جھوٹے الزامات عائد کئے گئے ہیں، ہم عزیر بلوچ کو بھی نہیں جانتے تھے صرف میڈیا پر عزیر بلوچ کے بارے میں سنا تھا، ہم نے بھی عزیر بلوچ کو پہلی بار اس کورٹ میں ہی دیکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: لیاری گینگ وار سے جڑے ارشد پپو قتل کیس میں اہم پیش رفت
پولیس کے مطابق یکم اگست 2010 کو پولیس اہلکار لالا امین، شیر افضل خان، غازی خان قتل ہوا تھا، مقتولین کو میوہ شاہ قبرستان کے پاس سے رینجرز اہلکار سمیت دیگر ملزمان نے اغوا کرکے عزیر بلوچ کے حوالے کیا تھا عزیر بلوچ نے اپنے ساتھیوں سکندر عرف سکو، سرور بلوچ اور اکبر بلوچ کے ساتھ مل کر قتل کیا تھا۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ ملزمان نے مقتولین کو قتل کرکے لاشوں کو قبرستان میں دفنا دیا تھا، عزیر بلوچ کے ساتھی سکندر عرف سکو، سرور بلوچ اور اکبر بلوچ مقابلے میں ہلاک ہوچکے ہیں، ملزمان کے خلاف تھانہ نیو ٹاؤن میں مقدمہ درج ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لیاری کا گینگسٹر رحمان ڈکیت جس نے اپنی ماں کو بھی نہیں بخشا
عزیر بلوچ کے وکیل عابد زمان کے مطابق اس وقت کراچی کی مختلف عدالتوں میں لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر جان بلوچ کے خلاف 12 مقدمات زیر سماعت ہیں، جن میں پیروی کرنے والے عزیر بلوچ کے وکیل عابد زمان کا بتانا ہے کہ عزیر بلوچ کے خلاف 72 مقدمات تھے اور اب صرف 12 رہ چکے ہیں جن میں ایک مشہور ارشد پپو قتل کیس بھی ہے۔
164 کا بیان میرا نہیں ہے میں نے کوئی بیان نہیں دیا
ان کا مزید کہنا تھا کہ 72 مقدمات میں سے صرف نبی بخش تھانے میں درج مقدمے میں 164 کا اعترافی بیان قلمبند ہوچکا ہے مگر اس بیان کے بارے میں عزیر بلوچ کہتے ہیں کہ یہ بیان انہوں نے نہیں دیا۔
’کیس بنانا کوئی بڑی بات نہیں اسے ثابت بھی کرنا ہوتا ہے‘
عابد زمان کہتے ہیں کہ مقدمات بنانا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہوتی پراسیکیوشن ثابت کیسے کرے گی یہ بڑی بات ہے، ان کا کہنا تھا کہ اکثر کیس چودھری اسلم کے بنائے گئے ہیں اور جن مقدمات میں عزیر بلوچ بری ہوئے اس کی وجہ بھی یہی رہی کہ پولیس کی جانب سے لگائے گئے الزامات وہ ثابت کرنے میں ناکام رہے اور عزیر بلوچ کے خلاف مقدمات میں شواہد اتنے ٹھوس نہیں کہ جس بنیاد پر اس کو سزا ہوسکے۔
عزیر بلوچ لیاری کا سیاسی ایکٹویسٹ؟
عابد زمان کا کہنا ہے کہ عزیر بلوچ اپنے آپ کو لیاری کا سیاسی ایکٹوسٹ مانتا ہے اور وہ کہتا ہے جو جرائم میرے حصے میں ڈالے گئے ہیں ان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
عزیر بلوچ کا 164 اور جے آئی ٹی کی اہمیت کیا ہے؟
عابد زمان کہتے ہیں کہ عزیر بلوچ نے اپنے 164 کے بیان پر عدالت اور عدالت سے باہر بھی بتایا کہ اس نے کوئی بیان نہیں دیا ہے جبکہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی کی اگر بات کی جائے تو اس میں سنگین انکشافات ہوئے ہیں تو کیا ان انکشافات کے بعد کوئی انکوائری ہوئی؟ تو یہ دیکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا ہوں کہ 164 کا بیان یا جے آئی ٹی عزیر بلوچ کے مقدمات میں کوئی مسئلہ نہیں پیدا کریں گے۔
کسی بھی کیس میں 164 اور شناخت پریڈ کو اہم سمجھا جاتا ہے
عابد زمان کا کہنا ہے کہ ہر کیس میں سمجھا جاتا ہے کہ 164 کا بیان اور شناخت پریڈ ہو گئی ہے اب کیس مضبوط ہو گیا ہے لیکن اصل چیز یہ ہے کہ ان 2 کاموں کے بعد بھی آپ کو شواہد کا ان سے ملاپ کرنا ہوتا ہے تب جا کر کیس ثابت ہوتا ہے، یہ ایک چین ہے جو ٹوٹنی نہیں چاہیے اور اگڑ ٹوٹی تو فائدہ ملزم کو ملے گا۔
عزیر بلوچ کی رہائی کب تک متوقع ہے
عابد زمان کہتے ہیں کہ عزیر جان بلوچ کی رہائی میں اس وقت ملٹری کورٹ سے ملنے والی سزا حائل ہے اور سزا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی کاپی اب تک 6 برس گزرجانے کے باوجود ہمیں نہیں ملی، کاپی ملنے کی صورت میں ہم اپیل میں جائیں گے، ورنہ عزیر بلوچ جیل کسٹڈی میں ہی رہیں گے۔