24 نومبر کا احتجاج: گرفتاریاں شروع، اسلام آباد میں داخلے کے لیے پی ٹی آئی کی حکمت عملی سامنے آ گئی

اتوار 17 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )نے 24 نومبر کو ہونے والے احتجاج کی تیاریاں تیز کردی ہیں جبکہ اسلام آباد میں داخلے کے لیے پارٹی کی حکمت عملی بھی سامنے آ گئی ہے، دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی متحرک ہو گئے ہیں اور پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے اہم رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی احتجاج: بتا نہیں سکتا لیکن ہماری حکمت عملی سخت ہوگی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو احتجاج کے اعلان کے بعد اسلام آباد میں داخل ہونے کی حکمت عملی طے کر لی ہے جس کے مطابق 24 نومبر کو اسلام آباد کے چاروں اطراف سے دھاوا بولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہر صورت اسلام آباد پہنچیں گےجبکہ اس حوالے سے اسلام آباد اور راولپنڈی ریجن کی پارٹی قیادت کو اہم ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئی ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی نے تمام صوبوں کے قافلوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے کے لیے الگ الگ راستے اپنانے کا ٹاسک دیا ہے۔احتجاج ملک گیر ہوگا اور اسلام آباد میں قیام کے لیے جگہ کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:24 نومبر کو پی ٹی آئی کا احتجاج ملک کو ڈیل ریل کرنے کی کوشش ہے، کامیابی نہیں ملے گی، نواز شریف

رپورٹس کے مطابق کور کمیٹی ارکان نے ڈی چوک میں قیام کی تجویز دی ہے، تاہم پارٹی قیادت نے کارکنوں کو کہا ہے کہ ذہن نشین کر لیا جائے کہ احتجاج غیر معینہ مدت کے لیے ہوگا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پارٹی نے یہ بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ کارکنان کو اپنے علاقوں سے کارکنوں کو اسلام آباد لانے کے اخراجات ممبران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی برداشت کریں گے، تمام انتظامات کی مشترکہ حکمت عملی بھی بنا لی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ علی امین گنڈاپور نے کہہ دیا ہے کہ اب کی بار وفاقی حکومت میں بڑا سرپرائز سامنے آئے گا، گزشتہ تمام احتجاجوں کی نسبت اس احتجاج کے لیے بہترین حکمت عملی بنائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کا ایک اور احتجاج، اہم قائدین ناخوش، کیا علی امین کارکنوں کو متحرک کرسکیں گے؟

میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پارٹی قیادت گرفتار ہو جاتی ہے تو پلان بی پر عمل کیا جائے گا اور ایم این ایز یا رہنماؤں کی گرفتاری کی صورت میں متبادل لیڈرز کی فہرست بنائی جائے گی اور پھر انہیں ٹاسک دیا جائے گا۔

ادھر میڈیا رپورٹس کے مطابق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں متعدد چھاپے مارے گئے، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے متعدد ارکان کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کے چھاپوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی ہیں جس میں پولیس اہلکاروں کو پی ٹی آئی رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:24 نومبر کے احتجاج میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی، پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کی وی نیوز سے خصوصی گفتگو

میڈیا رپورٹس کے مطابق این اے 48 راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل راجہ غضنفر کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ مرکزی رہنما شعیب شاہین کی رہائش گاہ پر بھی چھاپہ مارا گیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق لاہور میں پولیس کی بھاری نفری نے میاں محمود الرشید کے گھر پر چھاپہ مارا ہے جبکہ ان کے بیٹے ڈاکٹر حسن کے مطابق میاں محمود الرشید گزشتہ 18 ماہ سے جیل میں ہیں لیکن اس کے باوجود پولیس ان کے گھر پر چھاپے مار رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گھر پر صرف میری والدہ ہیں جبکہ میں خیبر پختونخوا میں ہوں۔

دریں اثنا خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے اعلان کیا کہ 24 نومبر کا احتجاج منصوبہ بندی کے مطابق جاری رہے گا اور انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے بارے میں کسی بھی قیاس آرائی کو مسترد کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے درمیان اختلافات کیوں پیدا ہوئے؟

بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ یہ مزاحمت کا وقت ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی نے واضح ہدایت کی ہے کہ مطالبات پورے کیے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر نگرانی تیاریاں زورو شور سے جاری ہیں، گزشتہ 3 روز کے دوران ایم این ایز، ایم پی ایز اور تنظیمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں اور مشاورت کی گئی۔

بیرسٹر سیف نے عمران خان کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کا بھی دفاع کرتے ہوئے انہیں ’پاکستان کی باعزت شہری‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ عملی سیاست میں شریک نہیں ہیں۔

انہوں نے احتجاج کے لیے صوبائی مشینری کے استعمال کے الزامات کی بھی تردید کی اور کہا کہ پچھلی ریلی میں ریسکیو 1122 کی گاڑیاں شامل کرنے کی وجہ وزیراعلیٰ کی شرکت تھی۔

مزید پڑھیں: احتجاج کی تیاری مکمل، واپسی تب ہوگی جب مطالبات پورے ہوں گے، علی امین گنڈاپور

دوسری جانب گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبائی حکومت کی جانب سے گڈ گورننس کے بجائے ریلیوں پر توجہ دینے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج سے پی ٹی آئی کے بانی کی رہائی نہیں ہوگی۔

ڈیرہ اسماعیل خان پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر کنڈی نے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور پی ٹی آئی کی زیرقیادت صوبائی حکومت پر عوام کے تحفظ ناکام رہنے کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے مزید کہاکہ ’ہر روز ہم شہید فوجیوں کے تابوت کندھوں پر اٹھاتے ہیں جبکہ وہ صوبے سے فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp