مانسہرہ کے ایک گاؤں برار کورٹ کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں، جس میں ٹریفک پولیس اہلکار ایک خاتون سے الجھتا ہوا دکھائی دیا اور پھر تھپڑ مارتا ہے۔ خاتون کے ساتھ گاڑی میں موجود مرد شور مچاتا سنائی دیتا ہے کہ ‘آپ نے میری بہن کو تھپڑ کیوں مارا، میں ادھر ہی اپنے آپ کو آگ لگاؤں گا’۔
اسی تنازعے سے متعلق دوسری ویڈیو میں گڑھی حبیب اللہ تھانے کے ایڈیشنل ایس ایچ او وقاص تنولی مظاہرین سے درخواست کررہا ہے کہ آپ 5 لوگ آجائیں، ہم پولیس اہلکار کو لا تے ہیں، وہ آکر آپ سے معافی مانگے گا۔
معاملے سے جڑی تیسری ویڈیو میں ایک گھر کے اندر محکمہ پولیس کے افسران سمیت دیگر اہلکار اور مقامی شہری 3 خواتین کے ہمراہ نظر آرہے ہیں۔ پولیس افسران خاتون کو تھپڑ مارنے والے اہلکار کو سادہ کپڑوں میں لاکر بھرے مجمعے میں خاتون سے معافی مانگنے کا کہتے ہیں، جبکہ مشترکہ جرگے نے خاتون کو پولیس والے سے بدلہ لینے کے لیے اسے تھپڑ مارنے کا حق بھی دیا۔
مزکورہ پولیس اہلکار جب خاتون سے معافی مانگنے کے لیے آتا ہے تو خاتون اسے تھپڑ مارنے کی کوشش کرتی ہے، خاتون کے تھپڑ سے بچنے کے لیے پولیس والا جب بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو خاتون اس پولیس والے کی پیٹھ پر تھپڑ مارتی ہیں اور کچھ نازیبا الفاظ بھی دہراتی سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔
یہ واقعہ ہے کیا؟
برارکوٹ ضلع مانسہرہ اور آزاد کشمیر کے سنگم پر واقع ایک گاؤں ہے، جہاں گزشتہ روز مظفر آباد سے گڑھی حبیب اللہ آنے والے ایک فیملی کا ہائی وے پولیس اہلکاروں کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کے جرم میں چالان کے بعد تنازعہ پیدا ہوا اور پھر کشمیری فیملی کے حق میں مقامی لوگوں نے اور مظفر آباد کی طرف سے آنے والے مظاہرین نے شاہراہ پر دھرنا دے دیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کو کشمیر سے ملانے والی اہم شاہرہ تقریباً 4 سے 5 گھنٹوں تک بند رہی۔
واقعہ کیسے اور کب پیش آیا؟
اس واقعے میں ملوث مظفر آباد کے رہائشی خورشید بانڈے نے رابطہ کرنے پر وی نیوز کو بتایا کہ 24 تاریخ کو معروف نعت خواں ابرار قادری کا انتقال ہوگیا تھا اور وہ اپنی اہلیہ، بیٹی، 2 بہنوں اور 1 پھوپھی زاد کے ہمراہ مرحوم ابرار قادری کی فیملی سے تعزیت کے لیے کشمیر سے گڑھی حبیب اللہ آرہے تھے۔
ہفتے کے دن 2 بجے کا وقت ہوگا جب ہم نے برارکوٹ پولیس چیک پوسٹ کراس کی تو کچھ فاصلے پر ہائی وے پولیس کے ناکے پر اہلکاروں نے ہمیں روک کر ان سے گاڑی کی دستاویزات مانگی، جو انہوں نے دکھائے اور پھر ڈرائیونگ لائسنس مانگا تو انہوں بتایا کہ مظفر آباد میں مینوئل سسٹم تبدیل کرکے اب آن لائن کردیا گیا ہے اس لیے ان کا اصل لائسنس ادھر جمع ہے، جس پر پولیس والوں نے رسید دکھانے کا کہا تو انہوں نے کہا بتایا کہ ہم مظفر آباد سے ادھر گھڑی حبیب اللہ ایک فوتگی والے گھر تعزیت کے لیے جارہے ہیں اور جلدی میں رسید لانا بھول گئے ہیں۔
میری یہ بات سنتے ہی پولیس اہلکار مجھے کہنے لگا کہ تمہارے خلاف تو پھر 5 ہزار کا چالان ہوگا، تم تو آزاد ریاست کے شہری ہو، تم نے احتجاج کرکے آٹا کیا سستا کروا لیا اب تم چالان بھی معاف کروانا چاہتے ہو؟
خورشید بانڈے نے مزید بتایا کہ یہ بات سن کر وہ کچھ فاصلے پر کھڑے ہائی وے پولیس کے افسر نعیم تنولی کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی مجھ سے 5 ہزار روپے چالان کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس پر نعیم تنولی نے کہا کہ آپ کا 1 ہزار روپے کا چالان ہوگا اور اس نے چالان کاٹ کرکے مجھے 1 ہزار 20 روپے کی رسید دی، لیکن اس کے باوجود میں نے نعیم تنولی سے شکوہ کیا کہ آپ کا یہ اہلکار کشمیریوں سے متعلق اس طرح کی باتیں کررہا ہے اسے سمجھائیں۔
خورشید بانڈے کے مطابق وہ ابھی نعیم تنولی سے گفتگو کر ہی رہا تھا کہ وہ اہلکار دوبارہ آیا اور اونچی آواز میں بولا ایک تو تم کشمیری تقریریں بہت کرتے ہو اور پھر اس نے میرے بازو سے پکڑ کر زور سے چلایا کہ اسے پولیس موبائل وین میں ڈالو۔
انہوں نے بتایا کہ جب مجھے کینچھتے ہوئے موبائل وین کی طرف لے کر جانے لگے تو میری بہن نے موبائل نکال کر ان اہلکاروں کی ویڈیو بناتے ہوئے شور کیا کہ خبردار جو ہمارے بھائی کو ہاتھ لگایا تو، یہ سن کر یہ اہلکار مجھے چھوڑ کر میری بہن کی طرف لپکا اور اسے زوردار تھپڑ مار کر ہاتھ سے موبائل چھین لیا، جس کے بعد انہوں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ بہن کو تھپڑ کیوں مارا ہے، وہ یہیں اپنے آپ کو آگ لگادیں گے۔
چونکہ ہم نے گھر سے نکلتے ہوئے ماتم والے گھر اطلاع دی ہوئی تھی کہ ہم آرہے ہیں لہٰذا جب ہمیں تاخیر ہوئی تو ان کی کال آئی کہ آپ لوگ کدھر ہیں؟ ہم نے بتایا کہ اس طرح پولیس نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، تو ماتم والے گھر سے بھی لوگ ہمارے پاس آگئے اور مقامی لوگ بھی جمع ہوگئے۔ پھر ہم نے روڈ پر احتجاجی دھرنا دے دیا کہ جب تک پولیس اہلکار معافی نہیں مانگے وہ وہاں سے نہیں اٹھیں گے۔
پولیس اہلکار کو تھپڑ کیوں مارا گیا؟
ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللہ گنڈاپور نے وی نیوز کو بتایا کہ شاہرہ کشمیر 4 گھنٹے سے مسلسل بند تھی، معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے سینیئر افسران کو ٹاسک سونپا گیا تھا کہ وہ معاملے کو حل کرائیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے لیے خاتون کے ساتھ بدتمیزی ناقابل برداشت تھی، جس پر متعلقہ افسران کو معاملہ حل کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
شفیع اللہ گنڈہ پور نے مزید بتایا کہ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جو میرٹ پر فیکٹ فائنڈنگ کرکے یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ واقعہ کیسے اور کیوں ہوا اور کیسے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی؟
اسی اثنا میں گڑھی حبیب اللہ ٹیوب ویل پر تعینات محکمہ پبلک ہیلتھ کے ملازم محمد صالح کی تھانہ گڑھی حبیب اللہ میں دی گئی ایک درخواست سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے، جس میں پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے خاتون کو تھپڑ مارنے کے واقعہ کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے اسے ملازمین کی تضحیک قرار دیا اور کارروائی نہ ہونے کی صورت میں ایس پی بالاکوٹ، ایس پی ٹریفک پولیس مانسہرہ اور ڈی ایس پی گڑھی حبیب اللہ کو تمام تر صورتحال کا زمہ دارٹھہرایا ہے۔
رابطہ کرنے پر محمد صالح نے درخواست کی تصدیق کی اور وی نیوز کو بتایا کہ خاتون کو تھپڑ مارنے کے واقعہ کی آڑھ میں روڈ بلاک کرکے افسران کو دباؤ میں لایا گیا اور انہوں نے عوامی دباؤ میں اپنی نگرانی میں پولیس اہلکار کو تھپڑ مروائے جو کہ ہم سب ملازمین کے لیے ناقابل قبول عمل ہے۔
خورشید بانڈے نے بتایا کہ ایس پی بالاکوٹ، ایس پی ٹریفک، ڈی ایس پی گڑھی حبیب اللہ اور ہائی وے کے پولیس افسران ہمارے پاس آئے، بہن کے چہرے کو دیکھا جس پر تھپڑ کے نشانات واضح تھے اور انہوں نے ہمیں یقین دہانی کروائی کہ وہ ہمارا مطالبہ تسلیم کرتے ہیں، مگر کچھ جرگہ عمائدین کا کہنا تھا کہ پبلک مقام پر تھپڑ مارنے کے بجائے کسی قریبی گھر میں بیٹھ جاتے ہیں، وہاں پولیس اہلکار معافی مانگے گا۔
جرگے کے کہنے پر پہلے ایک گھر میں گئے، مگر پولیس اہلکار وہاں نہیں آیا، پھر دوسرے گھر اور بالآخر تیسرے گھر میں افسران کے حکم پر پولیس اہلکار کو زبردستی لایا گیا جو اپنی حرکت پر افسران کی موجودگی میں معافی نہیں مانگنا چاہ رہا تھا اور بار بار بھاگ رہا تھا۔ تبھی میری بہن نے اس کو 2 تھپڑ مارے، اگر وہ عزت داروں کی طرح معذرت کرلیتا تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔
اس معاملے کے اہم کردار پولیس اہلکار طالع محمد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر اس کا نمبر مسلسل بند ہے، جبکہ موقع پر موجود دیگر پولیس اہلکاروں نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ صرف افسران کو موقف دینے کی اجازت ہے۔
بالاکوٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری سردار اشفاق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ خاتون کو تھپڑ مارنے پر پولیس اہلکار کے خلاف سول سرونٹ رولز کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے تھی، مگر پہلے پولیس اہلکار کی طرف سے خاتون کو تھپڑ مارنا اور پھر افسران کی موجودگی میں پولیس اہلکار کو تھپڑ مروانا، یہ دونوں غیر قانونی حرکات ہیں اور ان دونوں افعال کے قانونی نتائج ہیں۔