عید ماضی کے آئینے میں

پیر 24 اپریل 2023
author image

آمنہ سویرا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عیدالفطر جو مسلمانوں کے لیے خوشی منانے کا ایک با برکت تہوار ہے، رمضان کی بے پناہ عبادات اور ریاضتوں کے بدلے میں رب کریم تحفے میں اس دن کو منانے کے لیے تمام مسلمانوں کو خوشیاں بانٹنے، بغض، حسد اور کینہ ختم کر کے محبتوں کو دوام بخشنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔

آج کی نوجوان نسل نے گزشتہ کچھ برسوں میں جو عیدیں منائیں ان کا تسلسل بہ تدریج ایک سا ہے لیکن ہم جب اپنے بچپن کی یاداشتوں کے کواڑ کھول کر ان کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں آج کے دور سے بہت مختلف عید دکھائی دیتی ہے۔

عید، جو کہ اب ورچوئل مسیجنگ کی ایک یک سطری گریٹنگ سی بن کر رہ گئی ہے، کبھی ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر باضابطہ طریق سے منائی جاتی تھی۔آج کی عید بند کمروں میں تکیہ لگائے نوجوان نسل کے ہاتھوں کی انگلیوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے، ایک ہی پیغام کو اپنے موبائل پر ٹائپ کر کے سینڈ ٹو آل کا بٹن دبایا اور عید مبارک ہو گئی۔

مجھے کچھ کچھ یاد ہے کہ ہماری عید کھلے صحن میں بچھے بڑے بڑے پنگھوڑوں پر بیٹھ کر گپ شپ کی صورت کھلتی تھی، عید کے روز علی الصبح فجر کی ادائی کے بعد ہی گہما گہمی شروع ہو جاتی تھی، گھروں کے چولہوں میں تھمی دھیمی سی اپلوں کی آنچ میں مٹی کے برتن میں کاڑھنی دھری جاتی تھی، گاؤں کی واحد جامع مسجد میں ایک بھرپورمجمع اکٹھ ہوا کرتا تھا۔

گاؤں کا شاید ہی کوئی فرد عید کی نماز کی ادائیگی کے فریضے سے محروم رہتا تھا، اگر کوئی رہ جاتا تو گھر کی بزرگ خواتین بھی انھیں لعن طعن کرتی دکھائی دیتی تھیں، اسی لیے لڑکے مسجد جانے میں ہی عافیت سمجھتے۔

سویاں عیدالفطر کی ایک سوغات سی بن کر اپنی مہک سے دل لبھانے کو جی للچاتی تھیں، خوش نما لباس میں عطر کی مہک لپیٹے یار لوگ جو برسوں بعد ایک دوسرے کی جھلک تکنے کو تڑپ جاتے تھے ، ایک دوسرے کے گھر جا کر ملنے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے، کوئی بیرون ملک سے چھٹی آیا ہوتا تھا، کوئی فوج کا ملازم، کوئی شہر کی نوکری سے رخصت لے کر اپنے آبائی گھر پہنچتا۔

عید پڑھتے ہی اکثر لوگ اپنے پرکھوں کی قبروں پر فاتحہ کے لیے سیدھا مقام مرقد پر حاضری دے کر ہی گھر لوٹتے۔خواتین نت نئے پکوان چولہوں پر چڑھاتیں اور سہ پہر تلک خوب کھابے کھائے جاتے، شام کو سکھیاں دارے میں لگے قدیم درخت پر جھولے جھولنے چل دیتیں ، باضابطہ پینگھ کے جھولنے کی رفتار اور اونچائی پر مقابلے کی فضا سی بن جاتی، گاؤں کے لڑکوں کو منادی کی صورت دارے کی طرف جانے سے خبردار کر دیا جاتا اور یوں شام کے سائے ڈھلتے ہی ایک خوب صورت ، سادہ اور فطرت کے قریب دن کا اختتام ہو جاتا۔

آج کی عید اس عید سے کہیں مختلف ہے مگر، زندگی بند کمروں کی گھٹن میں سہم کر رہ گئی ہے اور ہر سمت ایک مصنوعی، کھوکھلی سی مروت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، سادہ دلوں پر مکاری کی سیاہیاں ہیں اور سانس ساکن ہے شاید۔۔رات باقی ہے مگر خواب کہ آیا ہی نہیں۔۔۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آمنہ سویرا ایک کارپوریٹ بینکر اور فری لانس رائٹر ہیں۔ روزمرہ زندگی میں پیش آئے معاشرتی رویوں کے مشاہدے کو انسانیت کی کسوٹی پر پرکھ کر جو سامنے آتا ہے، لکھ ڈالتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

گوگل فوٹوز میں نئے مصنوعی ذہانت کے فیچرز متعارف

استثنیٰ کسی شخصیت کے لیے نہیں بلکہ صدر و وزیراعظم کے عہدوں کا احترام ہے، رانا ثنا اللہ

افغان طالبان رجیم اور فتنہ الخوارج نفرت اور بربریت کے علم بردار، مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب

آن لائن شاپنگ: بھارتی اداکار اُپندر اور اُن کی اہلیہ بڑے سائبر فراڈ کا کیسے شکار ہوئے؟

امریکی تاریخ کا طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن ختم، ٹرمپ نے بل پر دستخط کر دیے

ویڈیو

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ