ترک صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا ہے کہ ترک انٹیلیجنس فورسز نے داعش گروپ کے مشتبہ رہنما ابو الحسین الحسینی القریشی کو ہلاک کر دیا ہے۔
ترک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر اردگان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تنظیم کے اس رہنما کو کل شام میں ترکی کی قومی انٹیلیجنس تنظیم کے آپریشن کے دوران ’بے اثر‘ کر دیا گیا ہے۔
صدر اردگان کے مطابق ترک انٹیلیجنس سروس اپنی کارروائی سے قبل ایک طویل عرصے سے سخت گیر گروپ کے اس مبینہ رہنما کی نگرانی کر رہی تھی۔ ’ہم دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘
شام کے مقامی اور سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ یہ حملہ شمالی شام کے قصبے جندرس کے قریب کیا گیا جس پر ترکیہ کے حمایت یافتہ باغی گروپوں کا کنٹرول ہے اور یہ 6 فروری کو آنے والے زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل تھا جس نے ترکیہ اور شام دونوں کو متاثر کیا تھا۔
ترکیہ کی جانب سے اس اہم آپریشن پر داعش کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ شامی نیشنل آرمی کی جانب سے بھی فوری طور پر کوئی تبصرہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔
NEW — #Turkey’s MIT intelligence service says it killed #ISIS global leader Abu al-Hussein al-Qurayshi in this raid in Jinderes in northern #Aleppo on Friday night.
MIT said it had been monitoring the site for some time. https://t.co/DxCxX72fGj
— Charles Lister (@Charles_Lister) April 30, 2023
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی شام میں ترک انٹیلیجنس ایجنٹوں اور مقامی ملٹری پولیس نے ہفتے کے روز جندیرس میں ایک زون کو سیل کر دیا تھا۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق مذکورہ کارروائی میں ایک اسلامی اسکول کے طور پر استعمال ہونے والے فارم ہاؤس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایک رہائشی نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ شہر کے کنارے پر ہفتہ سے اتوار تک رات بھر شروع ہونے والی جھڑپیں تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہیں اس سے پہلے کہ رہائشیوں نے ایک بڑے دھماکے کی آواز سنی۔
بعد میں سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تاکہ کسی کو بھی قریب آنے سے روکا جا سکے۔
ابو الحسین الحسینی القریشی نومبر 2022 میں اپنے پیشرو ابوالحسن الہاشمی القریشی کی ہلاکت کے بعد داعش کا سربراہ بنے تھے۔ داعش نے 2014 میں عراق اور شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا جب اس کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے اسلامی خلافت کا اعلان کیا تھا۔
لیکن شام اور عراق میں امریکی حمایت یافتہ افواج کے ساتھ ساتھ ایران، روس اور مختلف نیم فوجی دستوں کی حمایت یافتہ شامی افواج کی مہمات کے بعد اس گروپ نے علاقے پر اپنی گرفت کھو دی۔
اس کے باقی ماندہ جنگجو اب زیادہ تر شام اور عراق کے دور دراز علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً حملے کرتے رہتے ہیں۔