امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے منصوبوں کی منظوری دی ہے تاہم ابھی تک مکمل جنگ میں شمولیت کا حتمی فیصلہ مؤخر کردیا ہے۔
سی بی ایس نیوز اور وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ٹرمپ ایران کو اپنے جوہری پروگرام سے دستبرداری کا موقع دینا چاہتے ہیں، اس لیے فیصلہ آخری لمحے میں کریں گے۔ ادھر اسرائیل اور ایران کے درمیان فضائی حملے جاری ہیں، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے تہران میں کئی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے جبکہ ایران نے 400 بیلسٹک میزائل اور ایک ہزار ڈرون اسرائیل پر داغے ہیں۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کے 40 فیصد بیلسٹک میزائل لانچرز تباہ کر دیے ہیں اور ایرانی فضائی دفاع کے کئی اعلیٰ افسران مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے تازہ حملوں میں اسفہان، نطنز اور دیگر جوہری مراکز کو نشانہ بنایا ہے تاہم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مطابق فورڈو، خنداب، بوشہر اور تہران ریسرچ ری ایکٹر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
مزید پڑھیں: امریکا سن لے، ایران سرینڈر نہیں کرے گا، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا دوٹوک اعلان
امریکی قومی سلامتی کونسل کا اجلاس نتیجہ خیز فیصلے کے بغیر ختم ہوا تاہم یہ امکان زیر غور ہے کہ امریکہ اپنی جدید بمبار طیاروں کے ذریعے فرود پر حملہ کرے گا، جہاں یورینیم کو ہتھیاروں کے درجے تک افزودہ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی بحری بیڑے میں نمایاں نقل و حرکت جاری ہے اور مشرق وسطیٰ میں تعینات ہیں اور خطے میں امریکی موجودگی میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ فرانسیسی صدر نے ایران اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے لیے وزیر خارجہ جان نوئل بارو کو نامزد کیا ہے جبکہ روسی صدر پیوٹن نے ایران میں موجود روسی ماہرین کی سلامتی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کے درمیان گرم جوش گفتگو ہوئی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ کسی بھی فوجی مداخلت کے ناقابل تلافی نتائج ہوں گے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ وہ دباؤ میں مذاکرات نہیں کرے گا اور ہر خطرے کا جواب بھرپور جوابی خطرے سے دے گا۔