امریکا کی نئی ٹیرف پالیسی 27 اگست سے نافذ العمل ہوگی، جس کے بعد بھارت کے لیے روسی تیل کی رعایتی درآمدات مزید پیچیدہ ہو سکتی ہیں۔ اس صورتحال میں بھارتی نجی ریفائنرز، خصوصاً ریلائنس انڈسٹریز اور نیارا انرجی، اب تک کے سب سے بڑے مالیاتی فائدہ اٹھانے والے بن کر سامنے آئے ہیں۔
مارکیٹ شیئر میں روس کا غیر معمولی اضافہ
سن 2021 میں بھارت کی تیل مارکیٹ میں روس کا حصہ صرف 2 فیصد تھا، یوکرین جنگ اور مغربی پابندیوں کے بعد، روس نے رعایتی نرخوں پر تیل فروخت کر کے محض 42 مہینوں میں اپنا حصہ بڑھا کر اوسطاً 32 فیصد تک پہنچا دیا۔ جون 2025 میں یہ حصہ مزید بڑھ کر ریکارڈ 45 فیصد ہو گیا۔
https://Twitter.com/KShevchenkoReal/status/1948269418644988076
اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کے درآمد شدہ ہر دوسرے بیرل کا منبع روس تھا، یہ تبدیلی نہ صرف بھارت کی انرجی سیکیورٹی کے زاویے سے اہم ہے بلکہ عالمی تیل مارکیٹ کے جغرافیائی سیاسی توازن پر بھی براہ راست اثر ڈالتی ہے۔
نجی بمقابلہ سرکاری ریفائنرز
بھارت کی سرکاری ریفائنریز، جیسے او این جی سی، دہلی کے قیمت کنٹرول سسٹم کے تحت ملک میں ایندھن کی فراہمی کی پابند ہیں، اس وجہ سے وہ عالمی منڈی میں براہِ راست زیادہ منافع نہیں کما پاتیں۔ اس کے برعکس، نجی کمپنیاں اپنی زیادہ پیداوار یورپ اور ایشیا کو برآمد کر کے ڈیزل، جیٹ فیول اور دیگر مصنوعات پر بھاری منافع کماتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سرکاری ادارے اس رعایتی تیل کے مالیاتی فوائد میں نسبتاً پیچھے رہ گئے جبکہ نجی ادارے اس سے زیادہ مستفید ہوئے۔
ریلائنس اور نیارا انرجی کی بالادستی
رپورٹس کے مطابق، صرف دو نجی ریفائنرز نے 2025 میں اب تک روسی تیل کی کل بھارتی درآمدات یعنی 18 لاکھ بیرل یومیہ میں سے 8 لاکھ 81 ہزار بیرل یومیہ خریدا، ان میں سب سے آگے ریلائنس انڈسٹریز رہی جس نے بھارت کی ایندھن برآمدات کا 71 فیصد اپنے نام کیا، یعنی یومیہ 9 لاکھ 14 ہزار بیرل۔
https://Twitter.com/JohnBrittas/status/1676420478460919808
ریلائنس اور نیارا انرجی نے مل کر بھارت کی کل برآمدات کا 81 فیصد فراہم کیا، جو عالمی منڈی میں ان کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرتا ہے۔
سرمایہ کاروں کے لیے معنی
ریلائنس انڈسٹریز کی جمنگر ریفائنری، جو دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری ہے، اپنی پیداوار کا تقریباً 67 فیصد برآمد کرتی ہے۔ جون 2025 میں اس ریفائنری نے روس سے یومیہ 7 لاکھ 46 ہزار بیرل خام تیل درآمد کیا، جو اس کی پیداواری صلاحیت یعنی ایک اعشاریہ 36 ملین بیرل یومیہ، کا نصف سے زیادہ تھا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریلائنس اور نیارا کے منافع سرکاری کمپنیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں، اگرچہ ان کے اصل مالیاتی اعدادوشمار ظاہر نہیں کیے گئے، سرمایہ کاروں کے لیے یہ صورتحال اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت میں نجی ریفائنرز مستقبل قریب میں خطے کی توانائی کی تجارت کے بڑے کھلاڑی بنے رہیں گے۔
جغرافیائی و اقتصادی مضمرات
روسی تیل پر بھارت کا بڑھتا ہوا انحصار نہ صرف امریکا اور سعودی عرب جیسے روایتی سپلائرز کے لیے دھچکا ہے بلکہ مغربی ممالک کے تذویراتی دباؤ کے باوجود بھارت کی توانائی پالیسی کی خودمختاری کو بھی ظاہر کرتا ہے، نئی امریکی ٹیرف پالیسی کے بعد یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا بھارت اپنی نجی ریفائنرز پر مبنی حکمت عملی کو مزید تقویت دیتا ہے یا پھر عالمی دباؤ کے تحت روسی تیل پر انحصار کم کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔














