مادھوری ڈکشٹ کو کسی نے اپنے دور کی مدھوبالا قرار دیا تو کوئی ان کی دلفریب مسکراہٹ پر فدا ہوگیا۔ مادھوری ڈکشٹ ایک بہترین اداکارہ ہی نہیں بلکہ بہترین رقاصہ بھی رہیں۔ ان کی یہی خوبی دیگر اداکاراؤں سے انہیں ممتاز بناتی رہی۔
’دھک دھک گرل‘
90 کی دہائی میں ایسا کون سا اداکار تھا جو مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ کام کرکے خود کو سپر اسٹار بنانے کی خواہش نہ رکھتا ہو۔ وہ ایک ایسی اداکارہ رہیں جنہوں نے سب سے زیادہ 17 مرتبہ فلم فیئر ایوارڈز میں نامزدگی حاصل کی اور ان میں سے 6 مرتبہ وہ یہ ٹرافی جیت پائیں۔ ’دھک دھک گرل‘ جب جب اسکرین پر جلوہ گر ہوئیں ہر ایک کا دل دھڑکنا بھول گیا۔
پہلی کوشش میں ناکامی
بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ 1984ء میں جب مادھوری ڈکشٹ صرف 17 برس کی تھیں تو انہیں راج شری پروڈکشن کے ڈراما سیریل ’بمبئی میری ہے‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ڈرامے کی پائلٹ قسط بنا کر دور درشن حکام کو بھیجی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ ڈرامے کی کاسٹ دم دار نہیں۔
اس خبر نے مادھوری ڈکشٹ کے ارمانوں پر اوس گرا دی لیکن پروڈکشن ہاؤس کو مادھوری ڈکشٹ کی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا اور اسی سال انہیں ’ابودھ‘ میں شامل کیا لیکن فلم اور مادھوری ڈکشٹ دونوں کسی کو نہ بھائیں۔ اگلے برسوں میں انہوں نے آوارہ باپ، سواتی، حفاظت اور اتر دکشن میں کام کیا۔
’دیاوان‘ کا رومانوی منظر
فیروز خان نے جب ’دیاوان‘ میں مادھوری ڈکشٹ کو کاسٹ کیا تو بیشتر تجزیہ کاروں نے انہیں مشورہ دیا کہ انہوں نے ایک فلاپ اداکارہ کو منتخب کیا جو ان کی فلم کو ڈبو بھی سکتی ہے لیکن فیروز خان کو یقین تھا کہ مادھوری ڈکشٹ انہیں مایوس نہیں کریں گی۔ ونود کھنہ کے مقابل مادھوری ڈکشٹ ہیروئن بنیں تو ان کا کردار مختصر نوعیت کا تھا لیکن یہ اس قدر پُر اثر تھا کہ مادھوری ڈکشٹ کے لیے بالی ووڈ کے دروازے کُھلتے ہی چلے گئے۔ فلم میں ان کے اور ونود کھنہ کے ایک بوس و کنار کے منظر پر کڑی تنقید ہوئی لیکن اس منظر نے بھی مادھوری ڈکشٹ کی موجودگی کا احساس دیگر فلم سازوں کو دلایا۔
ہچکچاہٹ
مادھوری ڈکشٹ کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ انہیں جب فیروز خان نے بتایا کہ انہیں ونود کھنہ کے ساتھ یہ منظر عکس بند کرانا ہے تو ابتدا میں وہ ہچکچاہٹ کا شکار تھیں کیونکہ اُس دور میں کوئی بھی ہیروئن اتنی بے باکی نہیں دکھا سکتی تھی لیکن انہوں نے ہمت کرکے یہ بھی کر دکھایا۔
رقص کامیابی کی کنجی؟
مادھوری ڈکشٹ نے ابتدا ہی سے سوچ لیا تھا کہ اداکاری تو سبھی کرتے ہیں انہیں وحیدہ رحمان اور وجنتی مالا کی طرح رقص کو اپنی کامیابی کا ہتھیار بنانا ہے۔ اسی بنا پر مادھوری ڈکشٹ نے رقص پر خاصی توجہ دی۔
مادھوری ڈکشٹ کے لیے کام کرنے والی کوریو گرافر سروج خان کا کہنا تھا کہ ایک ایک اسٹیپ کے لیے مادھوری ڈکشٹ گھنٹوں محنت کرتیں۔ اداکاری کے علاوہ ان کا رقص بھی مثالی رہا۔ سروج خان کے مطابق کئی بار وہ خود تھک جاتیں لیکن مادھوری ڈکشٹ انہیں مجبور کرتیں کہ وہ مزید رقص کرائیں۔
’ایک دو تین چار پانچ’
مادھوری ڈکشٹ کے کیرئیر میں فلم ’تیزاب‘ نے جیسے کایا پلٹ دی۔ ان کا فلم کا گیت ’ایک دو تین چار پانچ’ نے تو جیسے انہیں راتوں رات شہرت کے آسمان پرپہنچا دیا۔ مادھوری ڈکشٹ کے رقص نے سب کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ جس کے بعد مادھوری ڈکشٹ کا وہ دور شروع ہوا جس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
فلموں کی ’ہیرو‘
مادھوری ڈکشٹ وہ اداکارہ رہیں جن کے ہوتے فلم کے ہیرو ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے۔ بلکہ کئی تجزیہ کار انہیں ہی فلم کا ہیرو اور ہیروئن قرار دیتے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ دل ہو، بیٹا، ساجن، کھل نائیک، ہم آپ کے ہیں کون، راجا اور یارانہ وہ تخلیقات ہیں جن میں ہیروز کے ہوتے ہوئے مادھوری ڈکشٹ ہی چھائی رہیں۔
یہی وجہ تھی کہ ہیروز سے زیادہ ان کی اداکاری کی دھوم مچی رہی۔فلم ساز اور ہدایتکار صرف اور صرف مادھوری ڈکشٹ کو ذہن میں رکھ کر کہانیاں لکھواتے۔
سری دیوی سے مقابلہ
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مادھوری ڈکشٹ کا اصل مقابلہ کسی اور سے نہیں صرف اور صرف سری دیوی سے رہا۔ دونوں اداکاراؤں کی خوبی یہ تھی کہ یہ اداکاری کے ساتھ ساتھ رقص میں اپنی مثال آپ تھیں۔
عالم یہ تھا کہ دونوں کی کوشش ہوتی کہ اگر کوئی مضبوط اور متوازن کردار ہے تو اس کو اداکرنے کے لیے اپنے معاوضے میں کمی کر دیں۔ صرف فلمیں ہی نہیں دونوں اداکارائیں ایک دوسرے کے ہیروز کو بھی چرانے کے لیے جتن کرتی رہتیں۔
علاوہ ازیں کوریو گرافر سروج خان پر یہی زور دیا جاتا کہ وہ ان کے لیے بہترین رقص کے انداز متعارف کرائیں۔
محبت کس سے؟
مادھوری ڈکشٹ نے کئی فلموں میں انیل کپور کے ساتھ کام کیا۔ ان میں حفاظت، بیٹا، تیزاب، کشن کنہیا اور رام لکھن نمایاں ہیں۔ انیل کپور کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے زیادہ پسند کی گئی۔
بالی وڈ میں یہ افواہیں بھی گردش میں رہیں کہ مادھوری اور انیل کپور دونوں عشق کی وادی مین کھوئے رہتے ہیں۔ مگر اس رومانی کہانی نےاس وقت کروٹ لی جب مادھوری ڈکشٹ کا نام سنجے دت کےساتھ جڑ گیا۔ یہاں تک مشہور ہوگیا کہ مادھوری ڈکشٹ اور سنجے دت نے چھپ کر شادی بھی کرلی۔ لیکن پھر مادھوری ڈکشٹ نے اچانک ہی اپنی تمام تر توجہ اداکاری پر مرکوز کرلی اور یہ بات راز ہی رہی کہ مادھوری ڈکشٹ نے کیا واقعی سنجے دت سے بیاہ رچا لیا تھا۔
سنجے دت اور مادھوری ڈکشٹ نے جن کامیاب فلموں میں کام کیا ان میں پرتی کار، کھل نائیک، صاحبہ، ساجن اور تھانے دار نمایاں ہیں۔
مصور ایم ایف حسین
مادھوری ڈکشٹ نے 1994ء میں جب فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ میں کام کیا تو ہدایتکار سورج برجاتیہ نے مادھوری ڈکشٹ کو اس قدر دلکش اور خوبصورت انداز میں عکس بند کیا کہ بین الاقوامی شہرت کے حامل مصور ایم ایف حسین ان کی مثالی خوبصورتی پر فدا ہوگئے۔
عالم یہ تھا کہ بزرگ مصور نے کئی بار یہ فلم دیکھی اور برملا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ مادھوری ڈکشٹ کے حسن کے قیدی بن گئے ہیں۔ ایم ایف حسین نے مادھوری ڈکشٹ کو پینٹ بھی کیا جبکہ ایک فلم ’گاجا جمنی‘ میں مادھوری ڈکشٹ کو شامل کیا جس کی ہدایتکاری خود ایم ایف حسین نے دی۔ بدقسمتی سے یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی۔
اچانک شادی اور امریکا رخصتی
مادھوری ڈکشٹ نے 17 اکتوبر 1999 کو امریکی نژاد بھارتی ڈاکٹر شری رام مادھونائن سے شادی کرکے سب کو حیران کردیا۔ اور پھر اس سے زیادہ صدمہ تو یہ ہوا ہے کہ مادھوری ڈکشٹ نے بھارت چھوڑ کر امریکا میں سکونت اختیار کی جہاں وہ ایک طویل عرصے تک رہیں۔
بھارت آکر وہ وقفے وقفے سے فلموں میں بھی کام کرتی رہیں۔ ان میں دیو داس، آجا نچلے، ڈیڑھ عشقیہ اور گلاب گینگ نمایاں ہیں۔
ویب سیریز اورٹی وی میزبانی
گزشتہ سال مادھوری ڈکشٹ کے چاہنے والوں نے جب انہیں ’دی فیم گیم‘ میں دیکھا تو اس ویب سیریز میں مادھوری ڈکشٹ کی اداکاری کا معیار حسب روایت عروج پر رہا۔ ویب سیریز کی کہانی ایک مشہور اداکارہ کے گرد گھومتی ہے جو اچانک ہی غائب ہوجاتی ہے۔ مادھوری ڈکشٹ نے اس عرصے میں مختلف ٹی وی چینلز سے رائلٹی شوز میں میزبانی بھی کی اور کئی میں جج بھی بنیں۔ 2008 میں انہیں بھارت کے سب سے بڑے سرکاری اعزاز پدما شری سے بھی نوازا گیا۔
مدھو بالا سے مادھوری
مادھوری ڈکشٹ کا کہنا تھاکہ ابتدا میں انہیں اچھا لگتا کہ لوگ ان کا موازنہ مدھو بالا سے کرتے ہیں لیکن وقت گزرتے گزرتے وہ خود محسوس کرنے لگیں کہ وہ کسی بھی صورت مدھو بالا کے پائے کی اداکارہ نہیں۔ اگر لوگ ان کی مسکراہٹ کومدھو بالا سے ملاتے ہیں تو یہ ان کا اپنا خیال ہے۔ وہ خود سمجھتی ہیں کہ مدھو بالا بہت بڑی اداکارہ تھیں وہ ان کے قریب بھی جا نہ سکتیں۔
عمر کی 56 بہاریں مثالی خوبصورتی برقرار
مادھوری ڈکشٹ اب عمر کی 56 بہاریں دیکھ چکی ہیں اور ان کی تازگی اور خوبصورتی دیکھ کر یہی لگتا ہے جیسے وقت تھم گیا ہو۔ ایک بیٹے کی والدہ مادھوری ڈکشٹ کا کہنا ہے کہ اب انہیں کئی ویب سیریز کی پیش کش ہوتی ہیں لیکن وہ صرف اور صرف بہترین کرداروں کی ویب سیریز اور فلموں میں آنا چاہتی ہیں۔ مستقبل میں مادھوری ڈکشٹ کا ارادہ ہے کہ وہ فلم سازی کے میدان میں بھی قدم رکھیں۔