وہ صوبائی حکومت برداشت نہیں جو آپریشن کے خلاف کھڑی ہو، ڈی جی آئی ایس پی آر

جمعہ 10 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی، وہ صوبائی حکومت برداشت نہیں جو آپریشن کے خلاف کھڑی ہو۔

کور ہیڈ کوارٹر پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان کی جانب سےتجدید عزم کرنے آیا ہوں، کے پی کے غیور عوام میں بیٹھ کر دہشتگردی کیخلاف جنگ کا احاطہ کرنا ہے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2016 سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ مگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں،رواں برس مارے جانے والے خارجیوں کی تعداد گزشتہ 10 سال سے زیادہ ہے۔ ہم دہشتگردی کے ناسور سے نبرد آزما ہیں لیکن ہم سب کو مل کر دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ان عوامل کو جاننا ضروری ہے جن کی وجہ سے آج دہشت گردی موجود ہے، انہوں نے دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 بنیادی وجوہات بھی بیان کیں۔

  • نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا۔
  • دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا۔
  • بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا۔
  • افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی۔
  • مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ۔

مزید پڑھیں: 9 مئی کے ماسٹر مائنڈز کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر احتساب کا عمل نہیں رکے گا، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کے تجدید عزم کے لیے آیا ہوں، دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے عزم کی تجدید کرتےہیں۔ ہم سب نے مل کر دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔

احمد شریف چوہدری نے صوبے میں انسداد دہشتگردی آپریشن کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 2024 کے بعد خفیہ اطلاعات پر 14 ہزار 535 آپریشنز کیے، یومیہ بنیاد پر کیے گئے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی تعداد 40 بنتی ہے۔

مزید پڑھیں: اس بار ہم ہندوستان کے مشرق سے آغاز کریں گے، ڈی جی آئی ایس پی آر کا دی اکانومسٹ کو انٹرویو

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں 2025 کے دوران 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جا چکے ہیں جن کی یومیہ تعداد 40 بنتی ہے جن میں 917 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا جا چکا ہے، جن یومیہ شرح 3.5 بنتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ 2024 میں آپریشن کے دوران 769 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، جن کی یومیہ تعداد 2.1 بنتی ہے، ان آپریشنز کے دوران 577 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں پاک فوج کے 272 بہادر افسران اور جوان، پولیس کے 140 جبکہ 165 معصوم پاکستانی شہری شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ رواں سال خیبر پختونخوا میں آپریشنز کے دوران 516 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جس میں پاک فوج کے 311 افسران و جوانان، پولیس کے 73 اہلکار اور 132 معصوم شہری شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: دشمن نے دوبارہ پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھا تو اسکو پاؤں تلے روند دیں گے، وزیراعظم شہباز شریف

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 2025 کے دوران 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جاچکے ہیں جن کی یومیہ تعداد 40 بنتی ہے جن میں 917 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا جاچکا ہے، جن یومیہ شرح 3.5 بنتی ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔ خیبر پختونخوا میں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، گمراہ کُن بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2 سال میں 30 کے لگ بھگ خودکش بمبار مارے گئے ان کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ہم خیبر پختونخوا پولیس کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو غزوات نہ ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ 2021 میں تمام سیاسی جماعتیں پشاور میں بیٹھیں اور ایکشن پلان بنایا، ‏14 نکات میں شامل تھا کہ آپ دہشتگردوں اور خوارج کو ماریں گے۔ دہشتگردی میں اضافے کی وجوہات نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا ہے۔

مزید پڑھیں:جہاد کا اعلان صرف ریاست کا اختیار ہے، کسی گروہ یا فرد کو اجازت نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دہشتگردوں کے پیچھے گٹھ جوڑ کو مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، آج یہ بیانیہ کہاں سے آ گیا کہ افغانوں کو واپس نہیں بھیجنا تو کیا آپ 2014 میں غلط تھے، 2021 میں غلط تھے۔ آج ریاست کہہ رہی ہے کہ افغان بھائیوں کو واپس بھیجیں تو سیاست کی جاتی ہے، بیانات بنائے جاتے ہیں، گمراہ کُن باتیں کی جاتی ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب افغانستان میں امن آچکا ہے اور وہاں کوئی قابض فوج نہیں ہے، تو کئی دہائیوں تک افغان بھائی کی مہمان نوازی کرنے والی ریاست انہیں واپس جانے کا کہتی ہے تو اس پر سیاست کی جاتی ہے، اس پر بیانیے بنائے جاتے ہیں اور گمراہ کن باتیں کی جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ نشست

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دوحہ معاہدے پر میں کہا گیا کہ افغان سرزمین نہ صرف امریکا بلکہ خطے میں بھی کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، مگر آپ کے سامنے اعداد و شمار رکھے ہیں کہ کتنے افغان تشکیلات میں آتے ہیں، کتنے ہم نے ختم کیے اور کتنے افغان خودکش حملوں میں ملوث ہیں، تو پھر کیسے افغان سرزمین خوارج اور دہشتگردوں کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہورہی ہے؟

انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان سے گیا تو اس کا چھوڑا ہوا اسلحہ بڑی تعداد میں خوارج کے پاس گیا، امریکا کی اپنی سگار کی 2024 کی رپورٹ کہتی ہے کہ امریکی فوج 7.2 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار افغانستان چھوڑ کر گئی۔

ترجمان پاک فوج نے خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران مارے گئے خارجیوں سے برآمد امریکی ہتھیاروں کی تصاویر بھی دکھائیں۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا سے متعلق وفاقی حکومت اور ادارے کام کررہے ہیں، برطانیہ کی عدالت نے گزشتہ دنوں جھوٹے بیانیے پر سزا دی ہے، برطانیہ میں ہتک عزت کا فیصلہ آیا، کیا پاکستان میں اس طرح کی کوئی مثال ہے؟

دہشتگردی کی 3 وجوحات

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ کون سے عوام ہیں جن کی وجہ سے دہشتگردی آج موجود ہے، پہلی وجہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ ہونا ہے، دوسری وجہ دہشتگردی کے معاملے پر سیاست کرکے قوم کو الجھانا ہے، تیسری وجہ بھارت کا افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے اکسانا ہے۔

’افغانستان میں دہشتگردوں کو پناہ گاہیں، جدید ہتھیاروں کی فراہمی بھی ایک وجہ ہے، 2 سالوں میں 30 کے قریب خود کش حملہ آور افغانی تھے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت افغانستان کو دہشتگردی کے لیے استعمال کررہا ہے۔‘

سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مل کر نیشنل ایکشن پلان بنایا

ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ 2014 میں سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پشاور میں بیٹھیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان نکات پر کام کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2021 میں پچھلی صوبائی حکومت نے جن نکات پر کام ہوچکا تھا انہیں خارج کرکے 14 نکات پر مشتمل نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اور تمام سیاسی عمائدین ، تمام سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان 14 نکات پر کام کرنا ہے۔

موجودہ حکومت نے بھی اسی ایکشن پلان کو وژن عزم استحکام کا نام دیا

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بھی اسی ایکشن پلان کو وژن عزم استحکام کا نام دیا، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی اولین وجہ یہ ہے کہ ان نکات پر عمل نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہا کہ ایکشن پلان کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ دہشتگردوں کو مارنا ہے، صرف یہی ایک نکتہ زمینی کارروائیوں سے تعلق رکھتا ہے، کیا اس پر کام ہورہا ہے کہ نہیں ہورہا، صرف خیبرپختونخو امیں سیکیورٹی ایجنسیاں یومیہ 40 سے زیادہ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کررہی ہیں، اس سال ہم نے 900 سے زیادہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا؟ کیا ہمارے شہدا اس بات کی گواہی نہیں دے رہے کہ پہلے نکتے پر کام ہورہا ہے اور بالکل ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ باقی 13 نکات کا بھی احاطہ کرلیا جائے کہ ان پر کیا کام ہورہا ہے، انہوں نے کہا کہ دوسرا نکتہ تھا کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاستدان یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں گے، یہ ہم نے نہیں کہا، تمام سیاسی عمائدین اور سیاسی جماعتیں 2014 سے اس بات پر متفق ہیں، کیا ہم اس بیانیے پر کھڑے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ پچھلے 3 ماہ میں دہشتگردی کے 3 ہزار 984 واقعات پیش آئے، ان میں سے 70 فیصد خیبرپختونخوا میں کیوں پیش آئے؟ یہ بڑا منطقی سوال ہے، جو نوجوان اور سوشل میڈیا بھی کرتا ہے، دہشتگردی کے یہ واقعات پنجاب اور سندھ میں کیوں نظر نہیں آتے؟

سندھ اور پنجاب میں دہشتگردی کیوں نہیں؟

انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں دہشتگردی نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ دہشت گرد ان صوبوں میں کام نہیں کرنا چاہتے اور اپنے نظریات کی وہاں ترویج نہیں چاہتے، نہیں اسکی قطعی یہ وجہ نہیں ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صوبوں میں گورننس قائم ہے، وہاں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قائم ہیں اور وہاں پر سیاست اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ کام نہیں کررہا، صرف یہی وجہ ہے جبکہ ہمارے اس عظیم صوبے میں بجائے اس کے کہ دہشتگردی کو کارکردگی،گورننس اور قانون کی عملداری سے ختم کیا جائے، اسے صوبائیت کا رنگ دیاجارہا ہے اور پر سیاست کی جارہی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ بذات خود ایک مجرمانہ عمل نہیں ہے؟ کہ گورننس، کارکردگی، صلاحیت اور استعداد کار اور سی ٹی ڈی کو بڑھانے اور عدالتی نظام کو مضبوط بنانے اور غیرقانونی مقیم افغانوں کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے ایک کنفیوژن اور ابہام پیدا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر آرمی چیف واضح طور پر کہہ چکے ہیں، گورننس کے خلا کو پاک فوج کے افسران، جوان، پولیس کے افسر اور جوان، بچے اور ہمارے ادارے اپنے خون سے پُر کررہے ہیں، حکومتی خلا کو پاکستان اور خیبرپختونخوا کے عوام روزانہ اپنے خون سے پُر کررہے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ اگر گورننس کے خلا کو پُر نہیں کرنا اور متفقہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کرنا تو پھر خیبرپختونخوا کو دہشتگردی کے ناسور سے کیسے چھٹکارا ملے گا، وہ حکومت قبول نہیں جو دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے خلاف کھڑی ہو؟

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ ریاست پاکستان کے انسداد دہشتگردی آپریشنز کے حوالے سے جو جھوٹا، فرضی اور من گھڑت بیانیہ بنایا جارہا ہے اور شہدا اور افواج پاکستان اور پولیس کی قربانیوں کی جو تضحیک کی جاتی ہے، یہ سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کے مزموم عزائم کی عکاسی کرتی ہے، خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے پیچے یہی سیاسی و مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے باقی صوبے این ایف سی ایوارڈ کا اپنا ایک فیصد حصہ کاٹ کر خیبرپختونخوا کو دیتے ہیں، وہ کہاں لگ رہا ہے، کے پی کو اربوں روپے ملتے ہیں، سیکیورٹی استعداد کیوں نہیں بڑھائی جاتی، صوبے میں ہر سال قدرتی آفات آتی ہیں، پیسا وہاں کیوں نہیں لگ رہا۔

پاک فوج میں خود احتسابی کا عمل

انہوں نے کہا کہ پاک فوج میں خود احتسابی کا عمل بہت شفاف اور مربوط ہے، افواج پاکستان میں دفاع کے لیے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں، جن کا ٹرائل ہورہا ہے وہ سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی ہیں، سب کو علم ہونا چاہیے کہ اس معاملے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، یہ انتہائی اہم نوعیت کا معاملہ ہے جس کا قانونی طریقہ کار ہے، پاک فوج کا خود احتسابی کا عمل الزامات پر کام نہیں کرتا۔

نہوں نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی سیکیورٹی کسی دوسرے ملک ،بالخصوص افغانستان کو رہن نہیں کی جاسکتی، صرف ریاست، افواج پاکستان اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی پاکستان کے عوام کی سلامتی کے ضامن ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں کو کسی سیاسی شعبدہ بازی سے پریشان نہیں کیا جاسکتا، ریاست پاکستان اور اس کے عوام کو کسی فرد واحد کی خواہش کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا، وہ فرد کو تن تنہا انتہائی غیر ذمہ داری سے دہشتگردی کو پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا میں واپس لایا۔

 کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لیے عوام کے جان و مال کا سودا کرے

انہوں نے کہا کہ کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لیے پاکستان اور خیبرپختونخوا کے غیور اور باعزت عوام کے جان، مال اور عزت آبرو کا سودا کرے۔

’آپ خیبرپختنخوا کے غیور عوام کی حفاظت کے لیے افغانستان سے سیکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے اس صوبے کے ذمہ داران ہوتے ہوئے خود اس کی حفاظت کریں گے‘

 انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان آئین اور قانون کے مطابق خیبرپختونخوا میں داخلی سلامتی کے فرائض انجام دے رہی ہیں، جس کی بنیادی ذمہ داری صوبائی اور مقامی انتظامیہ کی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ بجائے منفی سیاست، الزام تراشی اور خارجہ جرائم پیشہ مافیا کی سہولت کاری کے بجائے آپ اپنی اس بنیادی ذمہ داری پر توجہ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ آپ خیبرپختنخوا کے غیور عوام کی حفاظت کے لیے افغانستان سے سیکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے اس صوبے کے ذمہ داران ہوتے ہوئے خود اس کی حفاظت کریں گے جو نہ صرف خیبرپختونخوا کے عوام کا حق ہے بلکہ آپ کا فرض ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ افواج پاکستان یہ بات بھی واضح کرنا چاہتی ہیں کہ خارجی دہشتگرد اور ان کے سہولت کار چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی عہدے پر ہو، اس کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی کیونکہ پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار ’بنیان مرصوص‘ کی طرح دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے اور انشااللہ کھڑی رہے گی، ہمارے شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔

لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چوہدری نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا۔

’خارجیوں کے سہولتکاروں کے پاس 3 راستے ہیں‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا، جو شخص یا گروہ اپنی مجبوری یا کسی فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولتکاری کررہا ہے اس کے پاس 3 راستے ہیں کہ اول کہ وہ خود ان خارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے، یا پھر وہ دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں میں ریاست کے اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائے تاکہ معصوم عوام کو نقصان نہ ہو۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ دونوں کام نہیں کرنے تو پھر خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست پاکستان کے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہوجائیں۔

ترجمان پاک فوج نے صوبے کے شہدا کی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ اس دھرتی کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے آپ کے لیے جان دی ہے، ان کی شہادتوں اور ان کی قربانیوں پر کسی کو سیاست کی اجازت نہیں دی جاسکتی، پاکستان زندہ باد رہے گا اور خیبرپختونخوا زندہ باد رہے گا، اس حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔

افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار اور خطرات

صحافیوں کی جانب سے سوالات کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار اور سامان ضروری نہیں کہ صرف فتنۃ الخوارج یا فتنۃ الہندوستان ہی استعمال کریں، یہ اسلحہ اور سازوسامان کہیں بھی استعمال ہوسکتا ہے اور وسیع خطرات پیدا کر سکتا ہے۔

امریکی خدشات اور واپسی کے اعلانات

انہوں نے بتایا کہ خود امریکی حکومت بھی اس معاملے پر فکرمند ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات میں بھی اس ہتھیار اور سامان کی واپسی کا تذکرہ رپورٹ ہوا ہے۔

کابل کی ذمہ داری اور پاکستان کا موقف

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ فیصلہ افغانستان کی حکومت کا ہے کہ وہ غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی جاری رکھنا چاہتی ہے یا نہیں۔ ہمارا کام اپنا پیغام پہنچانا ہے اور ہم زبانی و عملی طور پر یہ کام کر رہے ہیں۔ ہم بالکل واضح ہیں کہ دہشتگردوں سے کیسے نمٹنا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان: یکجہتی اور عمل درآمد لازم

نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے کہا گیا کہ حالات تبھی بدلیں گے جب قوم میں یکجہتی ہوگی اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ دہشتگردی کے خلاف لڑائی پوری قوم کی لڑائی ہے۔

سہولتکاروں کو واضح پیغام

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جو لوگ سیاسی شعبدہ بازی کرتے ہیں ان کا گریبان پکڑیں اور پوچھا جائے کہ وہ دہشتگردی کے بیانیے کی حمایت کیوں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگرد اور اس کے سہولتکار کو برابر جانا جائے گا اور جو سہولتکار ہے اس کے پاس 3 چوائس ہیں: 1) دہشتگرد کو ریاست کے حوالے کرنا، 2) ریاست کے ساتھ مل کر اس ناسور کو ختم کرنا، یا 3) اگر یہ دونوں نہیں کرے گا تو اسے سہولتکار سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا۔

سہولتکاروں کے اہلخانہ اور حکومتی رویہ

انہوں نے نشاندہی کی کہ سہولتکار کے لواحقین کو مالی امداد دے کر اس کا رتبہ بڑھانا حکومت کے لیے آسان ہے، مگر اس بیانیے کی بنیاد صرف سیکیورٹی مسائل پر مرکوز رہنے کی وجہ سے گورننس اور کرپشن پر بات نہیں کی جاتی۔

گورننس، کرپشن اور صوبائی وسائل

ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال اٹھایا کہ صوبے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے این ایف سی کا 1 فیصد دے رہے ہیں یا نہیں اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کیوں نہیں ہوا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک پسماندہ ضلع سے 40 ارب روپے کی کرپشن سامنے آئی جو عام ٹھیکیدار کے پاس سے نکل آئی — اس پہ اٹھنے والے سوالات کیوں محدود رکھے جا رہے ہیں؟

سرحدی خطرات، اسمگلنگ اور سوشل میڈیا

انہوں نے بتایا کہ طویل سرحدی خطے میں دشمن یا سہولتکار دوسری طرف سے فوج کو انگیج کر کے دہشتگردوں اور اسمگلروں کو سرحد پار کراتے ہیں۔ جھوٹ اور کنفیوژن پر مبنی بیانیہ بنانے کی مہارت ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔

شفافیت، سچائی اور قومی ذمہ داری

ڈی جی آئی ایس پی آر نے عوام پر زور دیا کہ وہ دیانتداری کے ساتھ سچ بولیں کیونکہ منفی سیاست اور گمراہ کن بیانیے کا خمیازہ دہائیوں سے خاص کر خیبرپختونخوا بھگت رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس منفی پروپیگینڈے کے خلاف یک زبان ہو کر کھڑا ہونا ہوگا اور جھوٹ اور غلاظت سے بھری سیاست سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے اور وہ اسی رہنمائی اور طریق کار کے تحت عمل کریں گے تاکہ دہشتگردی اور اس کے سہولتکاروں کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پرندوں کی ہجرت کا عالمی دن، سعودی عرب میں آگاہی مہم آغاز

فیلڈ مارشل عاصم منیر کی دلیرانہ قیادت نے دشمن کو بھرپور جواب دیا، مشیر وزیر اعظم رانا ثنا اللہ کی پریس کانفرنس

اسرائیل نے مغربی کنارے میں موجود الجزیرہ کے دفتر کی بندش 7ویں بار بڑھا دی

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا افغانستان کی جارحیت پر سخت ردِعمل، پاک فوج کو خراج تحسین

جعلی ملک ‘ٹورینزا’ کا پاسپورٹ لے کر خاتون کے امریکا پہنچنے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

ویڈیو

پاکستان اور سعودی عرب کی اٹوٹ دوستی کی علامت فیصل مسجد

کراچی میں چھینے گئے موبائل کہاں جاتے ہیں؟ واپس کیسے پائیں؟

کراچی سے چھینے گئے موبائل کہاں جاتے ہیں، انہیں واپس لینے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟

کالم / تجزیہ

ٹیسٹ کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی پہلی کامیابی کی کہانی

جین زی: گزشتہ سے پیوستہ

کیا غزہ میں جنگ بندی دیرپا ثابت ہوگی؟ خدشات،اثرات، مضمرات