عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کو پنجاب پولیس کے حوالے کیوں کیا ؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیر تک آئی جی پولیس اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان سے جواب طلب کرلیا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کی دوبارہ گرفتاری پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کیس نے کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی عدالتی حکم کے باوجود دوبارہ گرفتاری پر توہین عدالت کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد پولیس ڈاکٹر اکبر ناصر خان کو نوٹس جاری کردیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پنجاب پولیس اسلام آباد سے کسی کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ بادی النظر میں اسلام آباد پولیس اس معاملے سے الگ نہیں ہوسکتی۔
عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ پنجاب پولیس کو اسلام آباد پولیس نے بلایا تھا اور ڈاکٹر شیری مزاری کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا پنجاب پولیس کو اسلام آباد پولیس نے اس لیے بلایا تھا کہ عدالت نے گرفتاری سے روکا ہوا ہے؟ عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کو پنجاب پولیس کے حوالے کیوں کیا ؟
مزید پڑھیں
توہین عدالت کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پیر تک جواب طلب کرلیا ہے۔
دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ ان مقدمات پر عدالت کو کچھ تحفظات ہیں۔ عدالت کی رٹ اس ملک کا وقار ہے۔ آئینی عدالت کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا گیا۔ ہم ججز ٹاک شو بیٹھ کر بات نہیں کرسکتے۔
’اٹارنی جنرل صاحب ملک کے لیے اعلی اتھارٹی کے سامنے یہ معاملہ رکھیں۔‘
اٹارنی جنرل عثمان منطور اعوان کا موقف تھا کہ یہ ملک آئین کے تحت ہی چلنا ہے۔ عدالتیں نے آئین کے تحت ہی کام کرنا ہے اور آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ وقت گزر جائے گا لیکن اسکی اثرات برقرار رہیں گے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ عدالتی رٹ کو شکست دی جائے۔
’جو پرتشدد واقعات ہوئے انہیں کوئی جسٹیفائی نہیں کرسکتا۔۔۔ عدالتی احکامات کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ ثابت نہیں کرتا کہ ہم مہذب ملک ہیں۔‘