افغانستان میں پختون برتری کا خاتمہ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟

بدھ 5 نومبر 2025
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کی بندش پر محمود خان اچکزئی نے تنقید کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں پوچھا کہ تم افغانستان کے خلاف اتنا جارحانہ انداز کیوں اپنائے ہوئے ہو۔ اس نے کیا کیا ہے؟ 3 دن پہلے تم انڈیا سے لڑ رہے تھے، پھر بھی کہتے ہو کہ ہم اس سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ تو افغانستان سے بات چیت کیوں نہیں۔

مشر محمود خان کا کہنا تھا کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے ان کے ساتھ مل جل کر امن سے ہی رہا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے محمود خان نے پاک افغان جھڑپوں کے وقت اس کو پھیلا کر جنگ بننے سے روکنے کا مشورہ دیا تھا۔ استنبول مذاکرات ناکام ہوتے لگے تب بھی انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی

مولانا فضل الرحمان نے بھی افغانستان پر محمود خان اچکزئی سے ملتی جلتی ٹون اپنا رکھی ہے۔ مولانا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں۔ جنگ کے نقصانات اور فوجی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی مذمت کرتے پائے جاتے ہیں۔ مولانا نے پاک افغان جھڑپوں کے بعد ثالثی کردار ادا کرنے کی بھی پیشکش کی۔

مولانا افغانستان سے جنگ کے خطرات بتاتے ہوئے افغانستان کو برطانیہ ، روس اور امریکا جیسی سپر طاقتوں کا قبرستان بتاتے ہوئے اس آپشن سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں۔

یہ دونوں پاکستان کے اہم پختون راہنما ہیں جن کی سیاست پختون قوم پرستی اور مذہبی فکر کی نمائندہ ہے۔ اسفندیار ولی خان گھر بیٹھ گئے ہیں جو بدقسمتی کی بات ہے اور وہ مستقل خاموش ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی مقبول ترین جماعت ہے اور صوبائی حکومت اس کے پاس ہے۔ پی ٹی ائی افغان مہاجرین کو نکالنے کے خلاف ہے۔ کپتان دہشتگردوں کے خلاف آپریشن، ڈرون کے استعمال اور افغانستان کے اندر مسلح گروپوں کو نشانہ بنانے کے بھی خلاف ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان سے زیادہ افغان طالبان کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ پی ٹی ایم نظریاتی طور پر افغان طالبان کی مخالف ہو کر بھی اس وقت ان کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے۔

یہ پاکستان کی پختون بیلٹ کی نمایاں سوچ کے مختلف رنگ ہیں جو سارے ہی افغان مسلے پر ریاستی مؤقف سے دور کھڑے ہیں۔ مولانا اور اچکزئی دونوں بہت سمجھدار سیاسی راہنما ہیں، یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ ان سے بات کرنا چاہیں اور وہ سننے سے انکار کریں۔ آپ منطق دیں وہ انہیں سمجھ آئے اور یہ اس سے انکاری ہو جائیں۔ تو لگتا یہی ہے کہ دونوں سے ہی جاری صورتحال پر رابطہ نہیں کیا گیا یا دونوں کو ہی ان کے حال پر چھوڑا گیا ہے۔

مزید پڑھیے: افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں

محمود خان اچکزئی جب افغان طالبان کو مخاطب کرتے ہیں تو ملا صیب کہہ کر شروع ہوتے ہیں۔ محمود خان کا مشہور ڈائلاگ  ’زہ ملا صاحب تہ ہم وایم، ورورہ خدای تہ وگوری لیونی دَ زان سہ مہ جوڑوی‘۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ’میں ملا صیب سے بھی کہتا ہوں کہ بھائی خدا کو مانو پاگل پن مت کرو‘۔ یہ آج کل دوبارہ آنا چاہیے تھا لیکن نہیں آیا۔

ڈیفنس منسٹر خواجہ آصف نے افغانستان کے ساتھ تناؤ کے دوران بہت جارحانہ بیانات دیے۔ وہ سفارتی لب و لہجہ اور انداز برقرار رکھے بغیر ہے بے دریغ بولتے رہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وہ اب خواجہ آصف کے بیان کا جواب نہیں دیں گے۔ خواجہ صاحب پوری پاکستانی قوم کی نمائندگی نہیں کرتے۔ انہوں نے اگر ٹوئٹ کی ہے تو اس کا سرکاری طور پر جواب دینا ضروری نہیں۔ ہمیں معلوم ہے پاکستانی قوم جنگ کے خلاف ہے۔ اس بیان کو آپ جدھر مرضی فٹ کر لیں۔ خواجہ صاحب کے مداح ہیں تو کہہ لیں کہ انہوں نے لاجواب کر دیا، پختون سیاسی قیادت کی پوزیشن دیکھیں تو لگتا اس کا خیال کیا جا رہا۔ خود افغان طالبان کی ماؤتھ پیس پاکستان میں سول ملٹری سوچ میں فرق کو اپنی میڈیا رپورٹس میں نمایاں کر رہے ہیں۔

پاکستان میں پختون لیڈر شپ ایک خاص مؤقف اپنائے ہوئے ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ان کو صورتحال پر بریف نہیں کیا گیا یا وہ کیا کہہ رہے اس سے حوالدار بشیر کو کوئی غرض ہی نہیں۔ فور اسٹار جنرل احسان افغان ایشو پر بولے ہیں۔ تھری اسٹار جنرل انعام الحق اور جنرل طارق خان نے اس پر بات کی ہے۔ میجر عامر بھی اس پر بہت منطقی انداز میں بولے ہیں ۔ پشاور سے کئی پختون یو ٹیوبر مسلسل معتدل رہتے ہوئے بھی پاکستانی مؤقف پر ہی اصرار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان سے لڑائی افغان طالبان کی تنہائی میں اضافہ

جنرل طارق خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ڈیورنڈ لائن کو یہ مانتے نہیں ہیں۔ افغانستان میں پختون کم ہیں اور پاکستان میں زیادہ ہیں۔ تو پھر یہ سرحد اٹھا کر آمو (سنٹرل ایشیا) پر ہی لے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی شاید سیکیورٹی فورسز کی ایک 3 اور ایک 2 کے تناسب سے دی جانے والی جان کی قربانیوں کو دیکھ کر بولنا شروع ہوئے ہیں۔

لگتا یہ ہے کہ افغان طالبان صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانے میں ناکام ہیں ۔ افغان طالبان کی پالیسی افغانستان میں صدیوں سے چلی آ رہی پختون برتری کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے اس کے لیے 3 دہائیوں کی تاریخ سے ہی اشارے مل سکتے۔ افغانستان کا ڈیموگریفک نقشہ دیکھ لیں۔

یہ بھی پڑھیے: ڈیجیٹل اکانومی پاکستان کا معاشی سیاسی لینڈ اسکیپ بدل دے گی

ایسا ہوا تو بدقسمتی یہ ہو گی کہ پاکستان کی پختون قیادت اس نقصان کا بروقت اندازہ لگانے میں ناکام رہنے کے الزام کا نشانہ بنے گی۔ کوئی ایک بھی ملا صیب پاگل پن مت کرو والی بات تب نہیں کہہ رہا جب اس کی ضرورت ہے۔ دوشنبے میں پاکستانی مندوب افغانستان پر اجلاس کو بتا چکے ہیں کہ دہشتگرد حملوں میں پکڑے اور مارے جانے والوں میں 70 فیصد افغان ہوتے ہیں۔ یہ وہ سیکیورٹی چیلنج ہے جس کو فوجی انداز میں ہی حل کرنے کا شاید سوچ لیا گیا ہے۔ یہ فوجی انداز سے حل ہوا تو اس کے کریڈٹ میں پختون لیڈر شپ شریک نہیں ہو گی۔ پختون کی افغانستان میں برتری کا خاتمہ ہوا تو دہائیوں تک اس کی ذمہ دار قرار پاتی رہے گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

اسلام آباد پولیس جنید اکبر اور دیگر کی گرفتاری کے لیے کے پی ہاؤس پہنچ گئی

ہندو برادری کے افراد کو داخلے سے روکنے کی بات درست نہیں، پاکستان نے بھارتی پروپیگنڈا مسترد کردیا

کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟

پارلیمنٹ ہاؤس سے سی ڈی اے اسٹاف کو بیدخل کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں، ترجمان قومی اسمبلی

ترکی میں 5 ہزار سال پرانے برتن دریافت، ابتدائی ادوار میں خواتین کے نمایاں کردار پر روشنی

ویڈیو

کیا پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات ایک نیا موڑ لے رہے ہیں؟

چمن بارڈر پر فائرنگ: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور تعطل کے بعد دوبارہ جاری

ورلڈ کلچرل فیسٹیول میں آئے غیرملکی فنکار کراچی کے کھانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

کالم / تجزیہ

ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر

میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟

کیا اب بھی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟