سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا اور سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک نے نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کی بنیاد آج رکھ دی ہے۔ واضح رہے کہ پرویز خٹک نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات کو جواز بنا کر عمران خان سے راہیں جدا کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا لیکن تحریک انصاف کے اندروانی حلقوں کا خیال ہے کہ پرویز خٹک پہلے سے پارٹی سے دور ہوگئے تھے جس کی وجہ عمران خان سے ان کی ناراضگی تھی۔ 23 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی واٹس ایپ گروپس پرویز خٹک کے پارٹی چھوڑنے اور دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت کے حوالے سے میسج شیئر ہوئے تھے۔
پرویز خٹک ناراض کیوں تھے؟
تحریک انصاف کے رہنما جو اندروانی معمولات سے واقف رہنمؤوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر وی نیوز کو بتایاکہ وفاق میں حکومت کے خاتمے کے بعد بھی پارٹی کے کچھ رہنما اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں تھے اور پارٹی میں اس پر تحفظات بھی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بات اس وقت منظرعام پر ائی جب عمران خان کو پتہ چل گیا کہ کچھ ساتھی تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں کو ختم کرنے خلاف تھے اور اسٹیبلشمنٹ سے مل کر خیبر پختونخوا میں محمود خان کی جگہ عاطف خان کو وزیراعلی بنانے کی مبینہ تیاری مکمل کر چکے ہیں۔ پرویز خٹک، فواد چوہدری، اسد عمر اور حماد اظہر نے مبینہ طور پر یہ تیاری کی تھی اور عاطف خان کو مبارک بار بھی دے چکے تھے۔
پارٹی ذرائع نے مزید بتایا کہ جب عمران خان تک یہ بات پہنچی تو وہ سخت ناراض ہوئے اور فوری طور پر اسمبلیاں توڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا۔ تحریک انصاف کے رہنما کے الزام کے حوالے سے موقف جاننے کے لیے ان افراد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نہیں ہو سکا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ اس کے بعد پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں آنے لگیں کہ کون اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہے اور اس کے بعد سے پرویز خٹک، فواد چوہدری، اسد عمر اور حماد اظہر خان کی گڈ بک سے نکل گئے تھے۔
پرویز خٹک کی اہلیہ کی وفات پر عمران خان تعزیت کے لیے نہیں گئے
تحریک انصاف میں عمران خان اور پرویز خٹک کے قریب رہنے والے ذرائع نے مزید بتایا کہ کچھ عرصہ قبل پرویز خٹک کی بیوی وفات ہوئی تھی اور لاہور میں ہی تعزیت کے لیے خٹک بیٹھے تھے لیکن عمران خان نہیں گئے اور نہ ہی فون کیا۔ جس پر بھی پرویز خٹک کو دکھ تھا۔ مشکل کی گھڑی میں عمران خان نے پرویز خٹک کو یاد تک نہیں گیا۔ جس کے بعد پرویز خٹک کو زمان پارک جاتے یا عمران خان سے ملتے نہیں دیکھا گیا۔ یہاں تک کہ پرویز خٹک کہاں اور کیا کرتے تھے کسی کو خاص پتا نہیں ہوتا تھا اور 9 مئی کو گرفتاری کے بعد بھی پرویز خٹک غائب رہے اور کہیں نظر نہیں ائے۔
ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کو اندازہ تھا کہ پرویز خٹک کسی بھی وقت پارٹی چھوڑ دیں گے۔ پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک کا ایک سیاسی جماعت کے ساتھ رابطہ تھا اور کچھ حد تک کچھ معاملات بھی طے ہوئے تھے لیکن جہانگیر ترین کے اچانک منظر عام پر انے کے بعد اب صوت حال تبدیل ہوگئی تاہم وہ ازاد حیثت سے الیکشن میں جانے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔
پرویز خٹک کا سیاسی سفر
73 سالہ پرویز خٹک نوشہرہ کے منکی شریف میں اس وقت کے نامور گورنمنٹ ٹھیکیدار کے ہاں پیدا ہوئے۔ پرویز خٹک اپنی ساسی سفر کا اغاز 1983ممبر ڈسٹرک کونسل نوشہرہ سے کیا تھا اور کامیابیوں کا ایکنہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدا میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک تھے۔
پرویز خٹک وزیر آب پاشی اور 2 مرتبہ وزیر صنعت و پیداوار بھی رہے۔ سال 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف سے ممبر خیبر پختونخوا منتخب ہوئے اور پی ٹی ائی کے پہلے وزیراعلی بن گئے۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہیں تحریک انصاف حکومت میں وزیر دفاع کا قلمدان دیا گیا۔ پرویز خٹک کو سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور وہ عمران خان کے انتہائی قریبی تصور کیے جاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاسی فیصلوں میں وہ عمران خان کو مشورہ بھی دیتے تھے اور میٹنگز کے دوران کچھ معاملات پر کھل کر مخالفت بھی کیا کرتے تھے۔