الجزیرہ کی’Who Lit the Fuse?‘ بھارت میں مسلمانوں پر کیے جانے والے نفرت انگیز جرائم کی تحقیقات پر مبنی دستاویزی فلم ہے جس کو بھارت کی ایک عدالت کی جانب سے ہندو بالادستی گروپوں کو خوش کرنے کے لیے ملک بھر میں نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
شمالی اتر پردیش ریاست میں آلہ آباد ہائی کورٹ نے ایک بھارتی شہری کی درخواست پر تین روز قبل دستاویزی فلم کو ملک میں فسادات کا باعث بننے کے سبب نشر کرنے سے روک دیا۔
’فلم نشر ہونے پر برے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے زیر بحث فلم کو نشر کیے جانے سے روکا جا رہا ہے۔‘
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق، درخواست گزار سدھیر کمار نے الزام لگایا کہ اس دستاویزی فلم کے نشر ہونے کے بعد شہریوں کے درمیان انتشار پیدا ہوگا جس سے بھارت کی سالمیت کو خطرہ پہنچ سکتا ہے۔
عدالت نے بھارتی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے کہ فلم کو سوشل میڈیا پر نشر یا اس کی تشہیر نہ کی جائے جب تک کہ حکام کی جانب سے اس کے مواد کی جانچ نہیں کی جاتی اور ضروری اجازت حاصل نہیں کی جاتی۔
یہ دستاویزی فلم الجزیرہ کی پوائنٹ بلینک تحقیقاتی سیریز کا حصہ ہے جس میں تمام ثبوتوں کے ساتھ ہندو بالادست تنظیموں کی سرگرمیوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے، اس فلم میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کے زیر اثر حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تمام سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
جرمن نازی گروپ سے متاثر جماعت آر ایس ایس ایک خفیہ ملیشیا گروپ جس کو 1925 میں تشکیل دیا گیا، اس کا مقصد آئینی طور پر سیکولر ہندوستان سے ایک نسلی ہندو ریاست بنانا ہے۔
مزید پڑھیں
اس گروپ پر 1948 میں مختصر طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جب اس کے ایک مشتبہ ممبر نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔
الجزیرہ کی اس دستاویزی فلم میں آرایس ایس سے منحرف ہونے والے ایک رکن کا انٹرویو دکھایا گیا، جس نے بھارتی فوج کی زیر نگرانی آر ایس ایس کے کیمپوں میں اپنے تربیتی دوروں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
اس فلم میں بی جے پی کی حکومت کے دوران شمال مشرقی ریاست آسام میں تقریباً 7 لاکھ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انہیں نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ 2019 میں شہریت کے قانون کی منظوری کے بعد سے، آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو اپنی قومیت کھونے اور پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں جلاوطن کیے جانے کا خدشہ ہے۔
الجزیرہ کی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ متعدد ہندوستانی ریاستوں میں مسلمانوں کی جائیدادوں کو مسمار کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر مہم چلائی جارہی ہے۔ ان مہمات میں گھروں اور کاروبار کو توڑنا شامل ہے، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ہندوستان کی مسلم اقلیت کو معاشی اور سماجی طور پر محروم کرنے کی کوشش ہے۔
بی جے پی کے ایک ترجمان نے دستاویزی فلم میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ہندو اکثریتی ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے پرعزم ہے اور جن افراد پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام ہے انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
الجزیرہ کی دستاویزی فلم کے خلاف یہ اقدام بی بی سی کی ایک فلم پر لگائی گئی اسی طرح کی پابندی کے بعد کیا گیا ہے جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے کردار پر سوال اٹھایا گیا تھا جب وہ ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس دوران 2002 کے فسادات میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مارے گئے تھے۔
جنوری میں بی بی سی کی فلم پر پابندی کے بعد سے، نئی دہلی اور ممبئی میں اس کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے، بھارتی حکام نے برطانیہ میں مقیم نیٹ ورک پر ٹیکس کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے۔ بی بی سی نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ اپنی دو حصوں پر مشتمل فلم میں بیان کردہ حقائق پر قائم ہے۔