آزاد کشمیر میں گھومتے ‘چیتے’، وائلڈ لائف کی ‘میرج بم’ استعمال کرنے کی اپیل

جمعہ 21 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے کے رہائشی اپنے آس پاس ‘چیتوں’ کی موجودگی کے احساس سے تشویش کا شکار ہیں۔ گزشتہ روز ضلع پونچھ کی تحصیل عباسپور کے گاؤں کلراں میں مقامی افراد کی جانب سے چیتے کے بچے دیکھنے کے بعد یہ تشویش باقاعدہ خوف کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

موقع پر موجود افراد نے چیتے کے بچوں کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں جس سے علاقے میں چیتوں کی موجودگی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔ ان ویڈیوز میں چھوٹے چھوٹے تین چیتے برساتی نالے کے پاس گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ علاقہ مکینوں کو خدشہ ہے کہ آوارہ گردی کرتے ہوئے انسانی آبادی میں آ دھکمنے والے ان خوب صورت چھوٹے چیتوں کے ہمراہ بڑے چیتے بھی علاقے کا رُخ کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی ماں جو کہ اپنے بچوں کی حفاظت کے پیش نظر قریب دکھائی دینے والے افراد پر حملہ آور بھی ہو سکتی ہے۔

ویڈیوز کہاں کی ہیں؟

لائن آف کنٹرول کے نزدیک واقع پونچھ کی تحصیل عباسپور کے گاؤں کلراں کے رہائشی آفتاب قادری کے مطابق چیتے کے تینوں بچے بدھ کے روز قریبی گاؤں منگوڑہ میں دیکھے گئے تھے، جس کی تصدیق وہاں کے رہائشی عمران جہانگیر کیانی نے بھی کی۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے آفتاب قادری نے بتایا کہ جمعرات کی سہ پہر 4 بجے انہیں چیتے کے بچےگاؤں کلراں میں اپنے گھر سے 4سو میٹر کے فاصلے پر نظر آئے جس کی تصاویر انہوں نے مقامی سوشل میڈیا گروپس میں بھی شیئر کیں۔

عباسپور
عباسپور، پونچھ کا گاؤں کلراں جہاں جمعرات کے روز تیندوے کے بچے دیکھے گئے۔ (فوٹو: گوگل ارتھ)

چیتے کے بچے کہاں سے آئے تھے؟

آفتاب قادری نے بتایا کہ چیتے کے بچے بدھ کے روز منگوڑہ کے مرکزی نالے کے پاس دیکھے گئے تھے جومرچکوٹ کے جنگل کے قریب ہی واقع ہے۔ آفتاب قادری کے بقول “کلراں” میں ان کے گھر کے اوپر بھی کافی بڑا جنگل ہے۔ یقیناً یہ چیتے قریبی جنگل سے ہی آئے ہوں گے۔

کیا ویڈیو میں دکھائی دینے والے بچے چیتے کے ہیں؟

چیتے کی نسل  اس وقت دنیا بھر میں معدومیت کے شدید خطرات سے دوچار ہے جبکہ اس کی کُل تعداد کا تخمینہ  7 ہزار تک لگایا جاتا ہے۔ براعظم افریقہ سے باہر یہ صرف  ایران میں معمولی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور آزادکشمیر کے جنگلات میں چیتے سے ملتا جلتا جانور ‘تیندوا’ پایا جاتا ہے، جسے اکثریتی لوگ چیتا سمجھتے ہیں۔ گو کہ اس واقعے میں منظر عام پر آنے والے جانوروں کے بچوں کو چیتا قرار دیا جا رہا ہے، لیکن حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے  ہیں۔ حالیہ برسوں میں آزادکشمیر کے محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس میں ان علاقوں میں بڑی تعداد میں تیندوے بتائے گئے ہیں جب کہ کہیں بھی چیتوں کی موجودگی کا تذکرہ نہیں ملتا۔ دور سے بنی ویڈیوز اور تصاویر میں بھی غور کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ ان آوارہ گرد تیندوؤں کے جسم پر سیاہ دھبے موجود ہیں جوچیتوں کی نسبت خاصے بڑے ہیں۔

یاد رہے  گزشتہ برس ستمبر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے افریقہ سے چیتے منگوا کر بھارت میں دوبارہ ان کی آباد کاری کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔ تاہم اب تک ان 20 میں سے 8 چیتے موت کا شکار ہو چکے ہیں جس  میں رہائش کے لیے مناسب جگہ اور شکار کا نہ ہونا بڑی وجہ بتائے جاتے ہیں۔

وائلڈ لائف اہلکارکیا کہتے ہیں؟

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے محکمہ وائلڈ لائف،عباسپور کے اہلکار نثار احمد نے بتایا کہ انہیں تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے تیندوے کے بچوں کی موجودگی کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔ جس پروہ آج دن بھر علاقے میں انہیں تلاش کرتے رہے تاہم وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیے۔ انہوں نے اہل علاقہ کو جنگلی جانور کے معاملے میں احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے جنگلی حیات کو کسی قسم کے نقصان پہنچانے سے گریز پر زور دیا۔ دوسری جانب ان ویڈیوز پر کیے گئے کمنٹس اور مقامی افراد سے بات چیت کے دوران وی نیوز کو اندازہ ہوا کہ اس علاقے کے لوگ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے پرجوش ہیں اور تیندوے کے بچوں کے دوبارہ دکھائی نہ دینے پر ان کی خیریت بارے فکرمند بھی ہیں۔ آفتاب قادری کے مطابق زیادہ امکان یہی ہے کہ تینوں بچے واپس جنگل میں چلے گئے ہوں گے۔

عباسپور کے گاؤں کلراں میں برساتی نالے کے قریب تیندوے کے 3 بچے دکھائی دے رہے ہیں۔ (فوٹو: آفتاب قادری)

تیندوے سے بچاؤ کے لیے ‘میرج بم’ کا استعمال کریں

 نثار احمد کے بقول انہوں نے جنگل کے قریب گاؤں میں مقیم افراد کو تیندوؤں سے بچاؤ کے لیے میرج بم کے استعمال کا مشورہ دیا۔ اگر کبھی تیندوے انسانی آبادی میں نظر آئیں تو انہیں واپس جنگل میں بھیجنے کے لیے میرج بم استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس بم سے ان کی مراد شادی بیاہ کے موقعوں پر خوشی کے اظہار کے لیے چھوڑے جانے والے پٹاخے تھی۔ ان کے مطابق ان پٹاخوں کی آواز اور ان سے پھیلنے والے دھوئیں کو تیندوے اور دیگر جنگلی جانور پسند نہیں کرتے جس کے باعث وہ جنگل میں واپسی پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

تیندوؤں کی عمریں کتنی ہیں؟

وائلڈ لائف اہلکار نثار احمد کے مطابق تصاویر اور ویڈیوز میں تیندوے کے بچوں کی عمریں 3 سے 4 ماہ کے درمیان دکھائی دیتی ہیں۔ چیتے کے بچے دیکھنے والے مقامی افراد کے بقول ان کی عمریں 5 سے 6 ماہ کی ہو سکتی ہیں۔

آبادی بڑھنے سے والڈ لائف (تیندوؤں) کو کیا خطرات ہیں؟

جنگلات کا بے تحاشا کٹاؤ اور بڑھتی آبادی  آزاد کشمیر کی جنگلی حیات کے لیے حالیہ برسوں میں بڑا خطرہ ثابت ہوئی ہے۔ وائلڈ لائف اہلکار کے مطابق تیندوے اور اس جیسے دیگر  جنگلی جانوروں کی کمی سے علاقے میں سوؤروں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو آئے روز مقامی افراد کی فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نثار احمد کے بقول جنگلی حیات کو معدومیت سے بچانے کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو۔

جنگلی حیات نے انسانی آبادی کو بھی کوئی نقصان پہنچایا ہے؟

چنار پریس کلب عباسپور کے صدر ریاض احمد خواجہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ  5 برس قبل ایک  تیندوا  چفاڑ کے علاقے  میں جنازے میں شریک لوگوں پر حملہ آور ہوا تھا جسے مقامی لوگوں نے فائر کرکے ماردیا۔ ریاض خواجہ کے بقول اس واقعے کے تقریباً ایک یا دومہینے بعد ان کے علاقے  نکر اندریناڑ میں ایک تیندوا مقامی آبادی میں گھس آیا تھا جسے ایک لڑکے نے فائرنگ کرکے مار دیا تھا ۔ تاہم اس واقعے میں تیندوے نے اس لڑکے پر حملہ آور ہو کر اسے بھی  زخمی کیا تھا۔ صدر چنار پریس کلب نے بتایا کہ وہ خود بھی زخمی ہونے والے لڑکے کو ملے تھے جب کہ  تیندوے کی لاش وائلڈ لائف کے لوگ کنڈیاریاں سے عباسپور  پولیس اسٹیشن لے گئے۔ انہوں نے اس کی لاش کی تصاویر بھی بنائیں، بعد ازاں اسے کسی افسر کو پیش کرنے کے لیے راتوں رات مظفر آباد پہنچا دیا گیا۔

اس سے قبل چیتے کب اور کہاں دیکھے گئے تھے؟

وائلڈ لائف اہلکار نثار احمد  کے مطابق کلراں کے قریب ہی خاصا بڑا جنگل ہے تاہم جنگلی حیات کا انسانی آبادی میں یہاں آنا پہلی بار ہی سننے میں آیا ہے۔ حالیہ عرصےان کے مطابق اس علاقے میں جنگلی حیات کی جانب سے انسانی آبادی کو نقصان پہنچائے جانے کا کوئی واقع رپورٹ نہیں ہوا۔ البتہ عباسپور سے پیچھے تولی پیر نیشنل پارک کی حدود جنگلی حیات کا بڑا مسکن ہے اس لیے وہاں بعض اوقات ایسے واقعات رونما ہو چکےہیں، جو یہاں سے کافی دور ہے۔

یاد رہے کہ اپریل 2023 میں پونچھ سے ملحقہ  ضلع حویلی کے گاؤں جبی سیداں کے ایک زیر تعمیر گھر میں تیندوے کے 3 نوزائیدہ بچے پُراسرار طور پر غائب ہو گئے تھے۔ تاہم موجودہ واقعے میں چونکہ بچوں کی عمریں 3 سے 4 ماہ کی ہیں اس لیے انہیں اٹھا کر غائب کرنا انتہائی مشکل ہے۔

نثار احمد کے بقول جنگلی حیات کو کسی قسم کا نقصان پہنچانا یا پکڑنا جرم ہے جب کہ مقامی آبادی نے بھی  ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp