پاکستانی قوانین کے مطابق مرد کو دوسری شادی کرنے سے قبل پہلی بیوی سے اجازت حاصل کرنی ضروری ہے تاہم گزشتہ ایک، دو روز سے سوشل میڈیا پر یہ خبر گرم ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت کو حال ہی میں اس قانون میں تبدیلی کی تجویز دی ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے بھی حق مہر سے متعلق ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی یا ثالثی کونسل کی اجازت لینا ضروری ہے تاکہ معاشرے میں توازن قائم رکھا جا سکے۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے شہری کی پہلی بیوی کو حق مہر کی فوری ادائیگی کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سنایاتھا۔
وی نیوز فیکٹ چیک
وی نیوز نے چیئرمین نظریاتی کونسل قبلہ ایاز سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ تجویز مولانا محمد خان شیرانی کے دور میں آئی تھی تاہم اس کے بعد اس پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔
آئین پاکستان کے مطابق دوسری شادی کا قانون کیا ہے؟
موجودہ قوانین کے مطابق اگر کوئی مرد پہلی بیوی کی تحریری اجازت کے بغیر شادی کرے تو پہلی بیوی کی شکایت پر اسے سزا یا جرمانے یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قانون کے مطابق دوسری شادی کرنے کے لیے تحریری اجازت نامے کے لیے یونین کونسل کے چیئرمین کو درخواست دینی ہوتی ہے جس میں دوسری مجوزہ شادی کی وجوہات اور پہلی بیوی سے اجازت حاصل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔
یونین کونسل چیئرمین یہ درخواست موصول ہونے پر شوہر اور بیوی سے اپنی اپنی جانب سے ایک، ایک رکن نامزد کرنے کے لیے کہتے ہیں جس کے نتیجے میں چیئرمین کی سربراہی میں ’ثالثی کمیٹی‘ تشکیل پاتی ہے۔
یہ ثالثی کمیٹی پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔
قانون کے مطابق کچھ مواقع پر اگر ثالثی کمیٹی کی اجازت کے بغیر شادی کی جائے تو ایسا کرنے کی صورت میں مرد کو سزا ہو سکتی ہے یا اس پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ یہ سزا ایک برس تک قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ دوسری شادی کرنے والے مرد کو پہلی بیوی کو فوری طور پر مہر کی تمام رقم ادا کرنی ہو گی۔