بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے تعلق رکھنے والے سلیم بلوچ گزشتہ 50 سال سے کشتی سازی کے کام سے وابستہ ہیں۔ محلہ کماڑی سے تعلق رکھنے والے شہری کو یہ پیشہ وراثت میں ملا کیونکہ اُن کے والدین بھی کشتی ساز تھے۔
پہلے ان کشتی سازوں کا گزر بسر ٹھیک ہو رہا تھا مگر اب مہنگائی نے جینا دو بھر کر دیا ہے۔ دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے کما رہے ہیں۔ کم کمائی اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث یہ ہنر مند اپنے بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیج پا رہے ہیں۔
سلیم جہاں کشتیاں بناتے ہیں اُس جگہ کو ’پدی زر‘ کہا جاتا ہے، جہاں بجلی ہے نہ کوئی اور سہولت۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کشتی ساز کسی مشینری پر انحصار کیے بغیر ہر کام اوزاروں کی بدولت اپنے ہاتھ سے کرنے پر مجبور ہیں۔ کشتی بنانے کا کام ٹھیکے پر کیا جاتا ہے اور ایک کشتی کی تیاری میں کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
چونکہ کشتی بنوانے والے ماہی گیر بھی کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، لہذا ٹھیکے کی معمولی رقم بھی ٹکڑوں میں وصول ہوتی ہے جو ان مزدوروں کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔
پدی زر میں سلیم کے ساتھ 2 سے 3 ہزار مزدور بھی کام کرتے ہیں۔ کشتی سازی جان جوکھوں کا کام ہے جس میں اکثر مزدور اور کاریگر بری طرح زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر ان کے ریسکیو اور علاج کے لیے کوئی ہسپتال تو درکنار طبی امداد کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔
ان کشتی سازوں کا ہنر اور انہیں درپیش مشکلات کا احوال جانیے گوہر اسلم بلوچ کی اس ویڈیو رپورٹ میں!