بحریہ ٹاؤن کراچی مقدمہ کیا ہے؟

جمعہ 24 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بحریہ ٹاون کراچی کے بارے میں سپریم کورٹ کے 23 نومبر کے فیصلے کے بعد بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز بحریہ ٹاؤن کو 21 مارچ 2019 کے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے دیا جس کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی نے سندھ حکومت کو 460 ارب روپے کی رقم ادا کرنی ہے۔

مزید پڑھیں

 کیا نیب ایک بار پھر سے بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف متحرک ہونے جا رہا ہے؟

بحریہ ٹاؤن کراچی نے سندھ حکومت کو 460 ارب روپے کی رقم 7 سالہ اقساط میں ادا کرنا تھیں جن کی ادائیگی گزشتہ سال سے بند ہے کیونکہ بحریہ ٹاون کا یہ دعویٰ تھا کہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2019 کے حکمنامے کے مطابق ان کو 16896 ایکڑ زمین دی جانی تھی جبکہ ان کو 11ہزار ایکڑ سے زاہد زمین دی گئی۔

لیکن کمشنر کراچی کی سپریم کورٹ میں جمع کردہ رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن 19931 ایکڑ پر قابض ہے۔ جس پر سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 2019 کے حکمنامے پر عمل درآمد کیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم نیب کی کارروائی کے بارے کوئی بات نہیں کریں گے کیونکہ اس سے نیب کارروائی پر اثر پڑے گا۔

اس تناظر میں معلوم یہ ہوتا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف نیب ایک بار پھر سے متحرک ہونے جارہا ہے۔

190 کروڑ برطانوی پاؤنڈ وفاقی حکومت کو واپس

ملک ریاض فیملی کی جانب سے لندن سے موصول ہونے والی 19 کروڑ برطانوی پاؤنڈز (35 ارب روپے)کی رقم جس کی ملکیت بھی کافی متنارع رہی، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت جبکہ اقساط میں موصول شدہ 30 ارب سندھ حکومت کو دے دیے۔

اگست 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے مشکوک مالی معاملات کے تناظر میں اپنی تحقیقات کے بعد بحریہ ٹاؤن کے مالک، ملک ریاض حسین کے خاندان کے برطانیہ میں کچھ بینک اکاؤنٹس اور اثاثے منجمند کر دیے تھے۔

جس کے بعد ملک ریاض حسین کے خاندان نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے عدالت کے باہر معاملات طے کرنے کی حامی بھری اور پھر 19 کروڑ برطانوی پاؤنڈ کی رقم طے پائی۔

دسمبر 2019 میں اس وقت کے ایسٹ ریکوری یونٹ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کسی فرد نہیں بلکہ فنڈز کے بارے میں تحقیقات کی گئی تھیں اور اس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ برطانیہ فوراً یہ 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم حکومت پاکستان کو منتقل کرے گا جس کو انہوں نے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا۔

 عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ مقدمہ

 سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ مقدمے کا تعلق بھی اسی 19 کروڑ برطانوی پاؤنڈ کی موصول شدہ رقم سے ہے جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ دونوں ملزمان ہیں۔

14 جون 2022 کو اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے موصول شدہ رقم کو بحریہ ٹاؤن کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے5 ارب روپے اور القادر ٹرسٹ کے نام پر سینکڑون ایکڑ اراضی لی۔

 اسی بنیاد پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف نیب نے القادر ٹرسٹ کرپشن ریفرنس بنایا اور 9 مئی کو عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔

4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اعجاز افضل خان نے ایک فیصلہ تحریر کیا جس کے تحت کراچی کی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پرائیویٹ ڈویلپر بحریہ ٹاؤن کے ساتھ زمین کے تبادلے کا جو معاہدہ کیا تھا اس کو کالعدم کر دیا اور قومی احتساب بیورو سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف انکوائری شروع کر کے 3 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بحریہ ٹاؤن نے دادو کے قریب زمین دے کر ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے 16896 ایکڑ زمین لی تھی اور اس پر ایک بڑا ہاؤسنگ منصوبہ شروع کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کیوںکہ اس معاملے پر اب چونکہ عام لوگوں کے مفادات بھی وابستہ ہو چکے ہیں اس لیے چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار اس معاملے پر عمل درآمد بینچ بنائیں۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن سے ایک ہزار ارب روپے کی ادائیگی کا کہا

سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے کے خلاف جب نیب نے بحریہ ٹاون کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو جون 2018 میں بحریہ ٹاون نے سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کی جس میں ابتدائی طور پر اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے مالک، ملک ریاض کو عدالت بلا کر کہا کہ آپ ایک ہزار ارب روپے جمع کروا دیں آپ کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔

لیکن بعد میں جسٹس ثاقب نثار نے نیب کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی سے روکتے ہوئے سپریم کورٹ فیصلے پر ایک عمل درآمد بینچ تشکیل دیا جس کی سربراہی سابق جج، جسٹس عظمت سعید شیخ کر رہے تھے۔

سپریم کورٹ عمل درآمد بینچ کا فیصلہ

سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے 21 مارچ 2019 کو بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اسے 7 سالہ اقساط میں سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا اور یہ بھی کہا کہ اگر بحریہ ٹاؤن مسلسل 2 اقساط ایک ساتھ جمع نہ کروا سکا تو اسے ڈیفالٹ تصور کیا جائے گا۔ لیکن بحریہ ٹاؤن نے اب تک سپریم کورٹ میں صرف 65 ارب روپے ہی جمع کروائے ہیں۔

 حالیہ پیش رفت

 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوئی جس میں ایک بار پھر سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن سے حاصل ہونے والے 460 ارب روپے کا اصل مالک کون ہے؟۔ آیا یہ پیسہ سندھ حکومت کا ہے یا ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا۔ 23 نومبر کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس پیسے کا اصل مالک سندھ حکومت کو قرار دے دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ایشیا کپ 2025: سپر فور مرحلے کا شیڈول جاری، کون کس کے خلاف کھیلے گا؟

چمن میں دھماکا: 5 افراد جاں بحق، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی مذمت

وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا کامیاب دورہ مکمل کرکے لندن پہنچ گئے

گوگل ڈاؤن: دنیا بھر میں جی میل، یوٹیوب، سرچ اور ڈرائیو متاثر

خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟

ویڈیو

اسلام آباد میں اولمپئین ارشد ندیم کے نام سے شاہراہ منسوب کرنے کا فیصلہ

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا شگفتہ انٹرویو

سعودی عرب اور پاکستان کسی بھی جارح کیخلاف ہمیشہ ایک رہیں گے، سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان

کالم / تجزیہ

پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے

سعودی پاکستان دفاعی معاہدے کی عالمی میڈیا میں نمایاں کوریج

چارلی کرک کا قتل