ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والی ایک اسرائیلی نژاد یہودی فلم ساز یولا بینیوولسکی کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر جنگ کی وجہ سے اپنی اسرائیلی شہریت ترک کر رہی ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں یولا بینیوولسکی نے اپنا اسرائیلی پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور آرمی سے استثنیٰ کا کارڈ دکھاتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اسرائیلی آرمی میں خدمات سرانجام نہیں دیں۔
یولا نے کہا کہ گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنی اسرائیلی شہریت ترک کرنے کی درخواست ٹورونٹو میں اسرائیلی قونصلیٹ میں جمع کرائی ہے۔
فیصلہ کرنے میں کئی سال لگے
یولا نے اپنے جذبات کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ جلدبازی میں نہیں کیا بلکہ وہ اس پر کافی عرصہ سے غور کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا وہ اسرائیل میں پلی بڑھیں۔ وہاں کے اسکولوں میں ہمیں اسرائیل کی جو تاریخ پڑھائی اور بتائی گئی درحقیقت وہ سچ نہیں تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جب انہیں اس جگہ کی اصل تاریخ کا پتہ چلا جہاں وہ پلی بڑھیں تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ یہ ایک طویل عمل تھا اور فیصلہ کرنے میں انہیں 20 سال لگے۔
اسرائیل کا مقصد امن نہیں
یولا نے کہا کہ یہ درست ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ حملوں کے ردعمل میں کیا ہے، یہ پہلی بار نہیں تھا کہ غزہ پر بمباری کی گئی۔
انہوں نے کہا، ’میں نے سوچا کہ یہی فیصلے کا وقت ہے کیونکہ مارے جانے والے افراد کی تعداد خطرناک حد تک پہنچ چکی تھی‘۔
Yuula Benivolski, a Toronto-based Jewish anti-Zionist filmmaker and activist, renounced her Israeli citizenship.
Her action became inevitable, "From the moment I learned about the real history of where I grew up".
It's a "state [Israel] that doesn't care about its own people". https://t.co/bxOTnjyveL pic.twitter.com/Bsl3nEgFMb
— The Canada Files (@TheCanadaFiles) November 29, 2023
انہوں نے کہا عارضی جنگ بندی کے باوجود ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں، اسرائیلی حکام کہہ رہے ہیں کہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد وہ کم سے کم 2 ماہ تک بمباری جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اسرائیل کو اس بات کا اندازہ ہے یا نہیں مگر غزہ میں ہونے والی اموات اس کے اپنے عوام کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
یولا نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کوئی گیم کھیل رہا ہے اور وہ آج کل جنگ جیتنے یا دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی باتیں کررہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والی ہزاروں اموات کی بات کررہے ہیں۔
یولا کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے تباہ شدہ گھروں پر ٹک ٹاک ویڈیوز بنا کر مذاق اڑا رہے ہیں اور اسی لیے اسرائیلی شہریت ترک کر رہی ہوں کیونکہ اب ان کے سامنے سب کچھ واضح ہے کہ اسرائیل کا مقصد امن نہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ اسرائیل کا کبھی یہ مقصد رہا بھی ہے یا نہیں۔
اسرائیل کو اپنے عوام کی فکر نہیں
انہوں نے کہا کہ جب وہ اپنے بچپن اور اس بارے میں سوچتی ہیں جب وہ آئے روز بمباری سے محفوظ رکھنے والی پناہ گاہوں کی طرف دوڑ کر جایا کرتے تھے، ان کے والدین ہر وقت ان کے بارے میں پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں ایسی صورتحال میں خود کو ’بہادر‘ ظاہر کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی اسی لیے وہ بھی اپنے چہرے پر بہادری کا تاثر سجائے ہر وقت پریشان رہتی تھیں۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اسرائیل ایسی ریاست نہیں ہے جسے اپنے لوگوں کی بالکل بھی پرواہ نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ابھی تو وہ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کو تشدد اور ذلت کا نشانہ بنائے جانے یا اسرائیلی شہریت رکھنے والے فلسطینیوں کے بارے میں بات نہیں کر رہی جنہیں اسرائیل استعمال کرتا ہے اور دنیا کو اس بات کا تاثر دیتا ہے کہ وہ نسلی امتیاز رکھنے والی ریاست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں بات کر رہی ہیں کہ اسرائیل کا رویہ اپنے لوگوں کے ساتھ کیسا ہے۔
یولا کا مزید کہنا تھا کہ وہ کافی عرصہ سے خود کو اسرائیلی شہری اور حتیٰ کہ اسرائیلی بھی تصور نہیں کررہی تھیں، وہ حیران ہیں کہ انہیں اس فیصلے تک پہنچنے میں اتنے برس لگے، انہوں نے کہا، ’میں تھوڑا بہت شرمندہ بھی ہوں لیکن جانتی ہوں کہ مجھے یہ فیصلہ کرنے میں اتنا عرصہ کیوں لگا‘۔
اسرائیل لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے پر پیسہ خرچ کرتا ہے
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے لوگوں، خاندان کے افراد، دوستوں اور پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے میں اتنا وقت اور پیسہ خرچ کیا۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے فیصلے کا ان کی زندگی پر اثر ہوگا، وہ اس جگہ پر نہیں جا سکیں گی جہاں وہ پلی بڑھیں، اس فیصلے سے اسرائیل اور کینیڈا میں رہنے والے ان کے خاندان کے افراد اور قریبی لوگوں سے تعلق متاثر ہوگا۔
یولا نے کہا کہ وہ گزشتہ چند ہفتوں سے غزہ میں ہونے والی اموات، وہاں کی ہولناک اور افسوسناک صورتحال کے بارے میں سوچ رہ رہی ہیں کہ وہ اپنے خاندان سے تعلق کھو دیں گی، انہوں نے کہا ہم اسرائیل میں نہیں رہتے مگر ہم میں سے بہت سے لوگوں کی ایسی ہی حالت ہے لیکن نفرت پر اکسائے جانے کا زہر ہمیں بھی متاثر کررہا ہے۔
فیصلہ مشکل مگر ضروری تھا
یولا کا کہنا تھا کہ وہ اس نفرت کے نظریہ کا حصہ نہیں بننا چاہتیں اور نہ ہی اس سے کوئی تعلق رکھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اپنے دیکھنے اور سننے والوں سے کہا کہ وہ بھی اس بارے میں تصور کر کے دیکھیں کہ اپنے ملک کی شہریت اور پاسپورٹ کو ترک کردینا کیسا لگتا ہے، انہوں نے یہ فیصلہ تو کیا ہے مگر اس فیصلے تک پہنچنے میں انہوں نے بے پناہ تکلیف سہی اور غم و غصہ کو برداشت کیا، لیکن یہ فیصلہ کرنا ضروری تھا۔