سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی متنازعہ عدالتی حکم کے تحت دی گئی پھانسی کی سزا کو عدالتی قتل قراردینے کے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ 12 دسمبر (منگل) کو سماعت کرے گا۔ اس ریفرنس پر 11 سال بعد دوبارہ سماعت کا آغاز کیا جا رہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ ریفرنس کئی اہم آئینی سوالات کو جنم دے گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں بننے والے 9 رکنی بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن علی رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
صدارتی ریفرنس ہے کیا؟
سابق صدر آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011ء کو سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قراردینے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔ یہ ریفرنس 18 صفحات پر مشتمل تھا جسے اس وقت کے سیکریڑی قانون مسعود چشتی نے عدالت میں جمع کروایا تھا۔ ریفرنس میں صدر زرداری نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر ختم ہونے والے عدالتی مقدمات کا ازسرِنو جائزہ لیں اور اس پر اپنی رائے دیں۔
اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے 3 جنوری 2012 سے 12 نومبر 2012 تک کیس کی 6 سماعتیں کیں لیکن کوئی فیصلہ نہ سنایا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس صدارتی ریفرنس کی ابتدائی سماعت کی تھی۔
مزید پڑھیں
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ اس مقدمے میں چاروں صوبوں سے عدالتی معاون بھی لیے جائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب اس مقدمے کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں فوجی آمر کی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کی نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی بہت عزت تھی۔
سابق وزیراعظم بھٹو کا مقدمہ
پاکستان کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر1977ء کوپہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا لیکن 10 دن بعد انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ 17 ستمبر1977ء کو انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ان پر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں مقدمہ بنایا گیا تھا۔
بھٹو نے اس وقت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی جانبداری اور توہین آمیز رویہ کی وجہ سے اس مقدمہ کی کارروائی کابائیکاٹ کردیا تھا لیکن 18 مارچ 1978ء کولاہور ہائیکورٹ نے یکطرفہ کارروائی میں بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا جسے 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے تین۔چار کے اکثریتی فیصلے سے برقرار رکھا تھا۔ 24 مارچ 1979ء سپریم کورٹ نے متفقہ طورپر بھٹو کی نظرثانی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ان کی سزا کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
پھانسی پانے والے منتخب وزیراعظم
ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد رحم کی اپیل نہیں کی لیکن عالمی رہنماؤں کی اپیلوں اور بین الاقوامی ماہرین قانون کی طرف سے اس فیصلے کی قانونی صحت پر تحفظات کے باجود اس وقت کی فوجی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی تھی۔
بعد میں موت کی سزا برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ایک سابق جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی بعد میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف عدالتی فیصلہ اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے دباؤ میں کیا گیا تھا۔























