بلوچستان کو ملک کا پسماندہ ترین صوبہ تصور کیا جاتا ہے 21 ویں صدی میں بھی صوبہ تعلیم، صحت، خوراک سمیت کئی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، ایسی صورتحال میں صوبائی حکومت کا کھیلوں کو فروغ اور کھلاڑیوں کی پشت پناہی کرنا ناممکن سا معلوم ہوتا ہے۔
قومی کرکٹ ٹیم اور پاکستان سوپر لیگ میں بلوچستان کے کھلاڑیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب تک بلوچستان سے صرف ایک کھلاڑی قومی کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔
بلوچستان کے علاقے بوستان سے تعلق رکھنے والے بائیں ہاتھ کے بلے باز شعیب خان نے اکتوبر 2008 میں کینیڈا میں ہونے والے ’البرکہ ٹی ٹوئنٹی‘ ٹورنامنٹ کے 4 میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔
مزید پڑھیں
حالیہ سالوں میں پاکستان سوپر لیگ(پی ایس ایل) میں بلوچستان کے کئی کھلاڑی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں، ان کھلاڑیوں میں بلے باز اور وکٹ کیپر بسم اللّٰہ خان ہیں جنہوں نے کوئٹہ گلیڈی ایٹر میں چند میچ کھیل رکھے ہیں۔
محمد جنید بھی پی ایس ایل میچوں میں بلوچستان کی طرف سے ملتان سلطان اور کوئٹہ گلیڈی ایٹر میں نمائندگی کر چکے ہیں اس کے علاوہ جلات خان، حسیب اللہ، ناصر خان اور واحد بنگلزئی جیسے کھلاڑی بھی پی ایس ایل میں کھیل چکے ہیں۔
بلوچستان میں کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے کوئی گراؤنڈ موجود نہیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے فرسٹ کلاس کرکٹ کے کھلاڑی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے علاوہ صوبے میں ایک بھی ایسا میدان نہیں جہاں کھلاڑی اپنی تیاری کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ڈومیسٹک کرکٹ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کو اس بات کا بھی ادراک نہیں کے اپنی صلاحیتوں کے جوہر کب اور کہاں دیکھانے ہیں۔ دوسری جانب ڈومیسٹک کرکٹ میں سفارش بھی بے حد چلتی ہے جس کی وجہ سے قابل کھلاڑی منظر عام پر نہیں آپاتے اور جو کھلاڑی بہتر کھلتے ہیں وہ دوسرے صوبوں کا رخ کر لیتے ہیں۔
بلوچستان کی کرکٹ بورڈ میں ریجنل نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، محمد خیر
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کرکٹ ریجن کے چیئرمین محمد خیر نے بتایا کہ قومی کرکٹ ٹیم اور پاکستان سوپر لیگ میں بلوچستان کے کھلاڑیوں کا جگہ نہ بنا پانے کے پیچھے 3 وجوہات ہیں۔
ان وجوہات میں پہلی وجہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں صوبے کی مؤثر نمائندگی نہ ہونا، دوسرا صوبے میں کھیلوں کے شعبہ میں وسائل کی کمی اور تیسرا کھلاڑیوں کا محنت نہ کرنا شامل ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو صوبے سے قومی کرکٹ ٹیم اور پی ایس ایل میں نمائندگی کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
پی سی بی میں بلوچستان کے کھلاڑیوں کے لیے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں
ان کا کہنا تھا کہ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی ) میں بلوچستان کی نمائندگی کا 8 فیصد کوٹہ موجود ہے لیکن پی سی بی میں صوبے کی نمائندگی صفر ہے جس کی وجہ سے ہمارے صوبے کے کھلاڑیوں کے لیے آواز اٹھانے والا کوئی موجود ہی نہیں ہوتا۔
محمد خیر نے کہا کہ بات کی جائے اگر کلب کرکٹ کی تو کلب کے پاس وسائل کی اس حد تک کمی ہے کہ کلب میچ یا پریکٹس کے لیے میدان بھی کرایے پر نہیں لے سکتے۔
کوئٹہ میں عام گراؤنڈ کا کرایہ 16 ہزار روپے ہے
کوئٹہ میں موجود عام کرکٹ گراؤنڈ کا کرایہ 16 ہزار روپے ہے جو ایک کلب کے لیے دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسری جانب صوبے میں ایک بھی ایسا میدان موجود نہیں جہاں اسپائک کے ساتھ کھلا جاسکے جس کی وجہ سے کھلاڑی مکمل طور پر بین الاقوامی کرکٹ کے لیے تیاری نہیں کر پاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان باتوں کے علاوہ ایک اور بڑی وجہ موسم بھی ہے کیونکہ ملک بھر میں ہمیشہ کرکٹ کھیلی جا سکتی ہے لیکن بلوچستان کے کئی علاقوں میں شدید سردی کے موسم میں کرکٹ کھیلنا ناممکن ہوتا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر سپورٹس جرنلسٹ حاجی اجمل نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان کے کرکٹرز کو کھیلنے کے لیے بہتر ماحول ہی نہیں مل پاتا۔ ملک کے دیگر شہروں میں کھلاڑیوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں جس کی وجہ سے ان کرکٹرز کی تربیت ہی نہیں ہو پاتی۔
بلوچستان کے کھلاڑیوں کے لیے بھی تربیتی مواقع فراہم کیے جانے چاہییں
ان کا کہنا ہے کہ کراچی اور لاہور میں نوجوان کھلاڑی قومی کرکٹرز کے ہمراہ اپنی تیاری کرتے ہیں جس سے انہیں جدید کرکٹ کی تعلیم اور سمجھ مل پاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پی سی بی کو بلوچستان میں بھی کھلاڑیوں کے لیے ایسے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
جس میں قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی یہاں آکر نوجوانوں کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ملک کے لیے کھیلنے کا جوش و ولولہ پیدا کریں۔ ایسے اقدامات سے بلوچستان کے کھلاڑیوں میں بھی قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے کا خوب پروان چڑھے گا۔