صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کو طلب کر لیا ہے، قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیے جانے کی سمری میں نگراں وزیر اعظم کے لہجے اور لگائے گئے الزامات پر صدر مملکت عارف علوی نے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری پہلے اس اعتراض کے ساتھ واپس کر دی تھی کہ جب سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ حل نہیں ہو جاتا تب اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔
مزید پڑھیں
صدر مملکت کے اس موقف کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے از خود اجلاس 29 فروری کو صبح 10 بجے طلب کر لیا تھا، آئین کے مطابق انتخابات کے بعد 21 ویں روز تک قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا ضروری ہے، ایسی صورت میں 29 فرروی تک اجلاس بلانا ایک نوعیت کا آئینی تقاضا ہے۔
الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر فیصلہ کل محفوظ کیا تھا۔
صدر مملکت نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی منظوری مخصوص نشستوں کے معاملے پر الیکشن کے 21 ویں دن تک حل کی توقع کے ساتھ دیتے ہوئے قومی اسمبلی اجلاس طلب کیے جانے کی سمری میں نگران وزیراعظم کے ’لب و لہجہ‘ قابل افسوس بھی قرار دیا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی کا کہنا ہے کہ صدر آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت ریاست کے سربراہ اور جمہوریہ کے اتحاد کی علامت ہے، بحیثیت صدر مملکت نگران وزیرِ اعظم کے جواب پر تحفظات ہیں، صدر مملکت کو عام طور پر سمریوں میں ایسے مخاطب نہیں کیا جاتا۔
’یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو نے صدر مملکت کو پہلے صیغے میں مخاطب کیا، نگراں وزیراعظم نے سمری میں ناقابل قبول زبان اور بے بنیاد الزامات لگائے، صدر مملکت نے اپنے حلف اور ذمہ داریوں کے مطابق ہمیشہ معروضیت اور غیر جانبداری کے اصولوں کو برقرار رکھا۔‘
صدر مملکت کی جانب سے جاری ایک اعلامیہ کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے سمری 26 فروری کی رات کو موصول ہوئی، جس میں وقت کی غلطی موجود ہے ، وزیراعظم نے دوبارہ غور کرنے کے لیے سمری آئین کے ارٹیکل 48 ایک کے مطابق واپس نہیں کی۔
’صدر کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ آئین پاکستان کو اس کے حرف اور روح کے مطابق نافذ کیا جانا چاہیے اگرچہ موجودہ انتخابی عمل میں ایسا نہیں کیا جا رہا، سمری کے پیرا 14 میں نگران وزیراعظم کی تجویز پر صدر مملکت اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہیں۔‘
صدر مملکت کے مطابق آئین کے آرٹیکل 51 اور 91 (2) پر سب کو عمل کرنا چاہیے اور اُن کی روح کے مطابق نافذ کیا جانا چاہیے، کچھ دنوں سے الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت مشق کررہا ہے، جسے 21 دنوں میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا، ابھی تک الیکشن کمیشن اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔
’مینڈیٹ، آرٹیکل(2) 51 میں دیے گئے وقت، مذکورہ تحفظات اور 21 ویں دن تک مخصوص نشستوں کے معاملے کے حل کی اُمید کے پیشِ نظر قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کو طلب کیا جاتا ہے۔‘
صدر عارف علوی کے مطابق صدر انتخابی عمل میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور حکومت قائم کرنے کے عمل سے غافل نہیں ہو سکتا، صدر کو قوم کی بہتری اور ہم آہنگی کے لیے قومی مفاد کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے، صدر کی جانب سے وزیراعظم کی قومی اسمبلی کے اجلاس سے متعلق سمری آئین کے آرٹیکل 48 ایک کے عین مطابق واپس کی گئی۔
’میرا مقصد آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی کی تکمیل تھا، مگر میرے عمل کو جانبدار عمل کے طور پر لیا گیا ،
قرارداد مقاصد کے مطابق عوام کو اپنے ملک کے ایگزیکٹو فیصلوں سے میں حصہ لینے سے محروم نہیں کیا جا سکتا، صدر مملکت سمری کے کچھ پیروں میں لگائے گئے آئین کی خلاف ورزی کے کچھ الزامات پر وقت صرف نہیں کرنا چاہتے۔‘
صدر مملکت عارف علوی کے مطابق انتخابات کے نتائج کے حوالے سے مختلف کیسز کو چیلنج بھی کیا جا رہا ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی رائے اور مینڈیٹ کا سب احترام کریں،
’یہ بات ياد دلانے کی ضرورت نہیں کہ نگران وزیراعظم کی ذمہ داری محض آئین کے تحت اور وقت کے اندر پرامن، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے، اس معاملے پر مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔‘