عام انتخابات کے بعد نئے وزیراعظم پاکستان کے انتخاب کا مرحلہ آج سے شروع ہوگا۔ وزیراعظم کا انتخاب کل ہوگا جبکہ کاغذات نامزدگی آج وصول کیے جائیں گے۔
اتحادی جماعتوں کی جانب سے صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف جبکہ سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کی جانب سے عمر ایوب وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے۔ شیڈول کے مطابق وزارت عظمیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی آج دوپہر 2 بجے تک وصول کیے جائیں گے، کاغذات نامزدگی سہ پہر 3 بجے تک واپس لیے جا سکیں گے۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم کے لیے کاغذات نامزدگی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے شعبہ قانون سازی سے لیے جاسکتے ہیں۔الیکشن قواعد کے تحت کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران تجویز اور تائید کنندگان کا موجود ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
گذشتہ روز قومی اسمبلی میں کیا، کیا ہوا؟
گذشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت شروع ہوا۔ ووٹنگ کے عمل کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز جونہی ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ پہنچے تو سنی اتحاد کونسل کی جانب سے چور اور مینڈیٹ چور کے نعرے لگائے گئے۔
شہباز شریف ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اپنی نشست پر آکر بیٹھے ہی تھے کہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے احتجاجاً ایک بار پھر نعرے بازی کی جس کے بعد ایوان مچھلی بازار بن گیا اور ن لیگ و سنی اتحاد کونسل کے اراکین آمنے سامنے آگئے۔
ایک گروپ نے جوتے تو دوسرے نے گھڑیاں لہرائیں
شیر افضل مروت اور دیگر اراکین نے ہوا میں جوتے لہرائے جس پر لیگی رہنماؤں نے گھڑیاں لہرائیں۔ دونوں جانب سے اراکین نے شدید نعرے بازی کی اور شہباز شریف کے ایوان سے جانے پر بھی نہ صرف نعرے بازی کی گئی بلکہ سیٹیاں بھی بجائی گئیں۔
آصف زرداری کے ساتھ سیلفیاں
اگر پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو ووٹ ڈالنے کے لیے اکٹھے آئے جس کے بعد ایوان میں اراکین سے ملاقات کے دوران شائستہ پرویز سمیت دیگر خواتین آصف علی زرداری کے ساتھ تصاویر بناتی نظر آئیں۔
پیپلز پارٹی خاموش تماشائی
ایوان میں لیگی رہنماؤں کے خلاف وقتاً فوقتاً شدید نعرے بازی کی جاتی رہی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ مقابلہ اور نعروں کا تبادلہ صرف اپوزیشن اور ن لیگ کے درمیان تھا، پیپلز پارٹی کے اراکین اس دوران خاموش تماشائی بنے رہے۔
’عوام کا فیصلہ قیدی 804‘
پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کا جوش و جذبہ آج بھی برقرار رہا۔ عمران تیرے جاں نثار، عوام کا فیصلہ قیدی 804، پاکستان کا سہارا عمران سمیت دیگر نعرے لگاتے رہے۔ ایوان میں عمران خان کے نعرے آخر تک گونجتے رہے اور پی ٹی آئی اراکین کی نعرے بازی وقتاً فوقتاً ایوان میں گونجتی رہی۔
’لڑائی لڑائی معاف کرو‘
اسپیکر کا انتخاب ختم ہوتے ہی وہ تمام اراکین آپس میں خوش گپیاں کرتے دکھائی دیے جو کچھ دیر قبل ایوان میں ایک دوسرے پر سخت نعروں کے تیر برسا رہے تھے۔ منتخب ہونے والے نئے اسپیکر کے نام کا اعلان ہونے سے پہلے ہی ن لیگ کا جشن شروع ہو گیا تھا۔ عطا اللہ تارڑ اسپیکر ڈیسک سے اپنی نشست پر آکر پہلے ہی اراکین کو ڈائس بجا کر مبارک دینے لگے جس کے بعد اناؤنسمنٹ کے ذریعے بتایا گیا کہ سردار ایاز صادق 199 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے 22 ویں اسپیکر منتخب ہوگئے ہیں۔
’ورنہ میرے ووٹ 225 ہوتے‘، عامر ڈوگر
حلف اٹھانے کے بعد سردار ایاز صادق نے ایوان سے خطاب کیا اور پھر مائیک ہارنے والے اپنے حریف عامر ڈوگر کو دے دیا۔ عامر ڈوگر نے تقریر کا آغاز کچھ اس جملے کے ساتھ کیا ’8 فروری کو جو خاموش الیکشن ہوا اگر اس کے صحیح نتائج اتے تو میرے ووٹ 225 ہوتے‘۔ عامر ڈوگر اپنی تقریر میں اداروں اور سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے رہے جس پر اپوزیشن نے عمران خان کے حق میں خوب نعرے لگائے۔ اجلاس کو آگے بڑھاتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ ایوان میں بہت سے اراکین کو دیر ہوری ہے ان کے گھروں میں شادیاں ہیں اس لیے ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب شروع کیا جائے۔
ڈپٹی اسپیکر کے لیے پولنگ اور خواتین کی ڈیسک کی تھاپ پر گنگناہٹ
پھر ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے لیے پولنگ شروع ہوئی اور ایک بار پھر جب لیگی رہنما ووٹ ڈالنے آئے تو انہیں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے سخت نعرے بازی کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے دوران ایوان میں گہما گہمی اسپیکر کے لیے پولنگ کے مقابلے میں کچھ کم نظر آئی لیکن یہاں ایوان میں بیٹھی کچھ خواتین نے ڈیسک بجا کر گنگناتے ہوئے کسر پوری کی۔ جس پر پریس گیلری میں موجود صحافی بھی کھل اٹھے۔
ایوان میں جب عصر اور مغرب کی اذانیں ہوئیں تو اس موقع پر وقفہ لیا گیا مگر ظہر اور جمعہ کی نماز کے لیے نہ تو وقفہ کیا گیا اور نہ ہی اذان کی آواز سنائی دی۔ ڈپٹی اسپیکر کے انتخابی عمل کے دوران بھی ایوان میں رونق اپوزیشن جماعت کی جانب سے ہی لگائی گئی۔ گنتی کے عمل کے بعد ایاز صادق نے منتخب ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفیٰ شاہ کو حلف لینے کے لیے بلایا۔
وزیراعظم کے لیے کاغذات نامزدگی کل جمع ہوں گے، ڈپٹی اسپیکر کا اعلان
ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب سے پہلے اور بعد میں بھی اراکین کی جانب سے تقریریں کی گئیں اور پھر قومی اسمبلی کا اجلاس 3 مارچ دن 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے اناؤنس کیا گیا کہ کل بروز ہفتہ دن 2 بجے تک وزیراعظم کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا سکتے ہیں اور یوں 8 گھنٹے 35 منٹ تک چلنے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا۔