خان شہید

بدھ 6 مارچ 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برصغیر کی آزادی کے لیے حریت پسندوں نے لازوال جدوجہد کی۔ ہر علاقے سے آزادی کے ہراول دستے میں ایسے نام شامل تھے جنہیں اگر ریاستی تاریخ تسلیم نہ بھی کرے تو آزاد منش مورخین کا قلم انہیں بھول نہیں پائے گا۔ آزادی کی اس جنگ میں جہاں ایک طرف انگریز سامراج کی طرف سے بےپناہ مظالم ڈھائے گئے وہیں اس کے کاسہ لیسوں نے ایسی تاریخ لکھی جس میں کئی مجاہدین آزادی کا نام مٹانے کی کوشش کی گئی۔ آج ہم ایسی ہی ایک شخصیت کا تذکرہ کریں گے جس نے آزادی کی اس جنگ میں زندگی کا ایک بڑا حصہ جیلوں میں گزارا۔

دس دسمبر 1927 کو افغانستان کے امیر امان اللہ چمن پہنچے تو وہاں بیس سالہ نوجوان خان عبدالصمد خان اچکزئی بھی موجود تھے۔ ایک انگریز افسر بھی وہاں امیر امان اللہ خان کے استقبال کے لئے موجود تھااور بارش کی وجہ سے جب انگریز افسر کے جوتوں پر بارش کے چھینٹے پڑتے تو ایک ہندوستانی سپاہی تولیے سے اس کے جوتے بار بار صاف کرتا۔ یہ وہ واقعہ تھا جو خان عبدالصمد خان شہید کی زندگی میں انقلابی تبدیلی لانے کا سبب بنا۔ اور یہ منظر دیکھنے کے بعد وہ انتہائی بے چین ہو گئے۔

عبدالصمد خان اچکزئی جولائی 1907ء کو بلوچستان کے قلعہ عبداللہ کے گاؤں عنایت اللہ کاریز میں پیدا ہوئے۔ ان کا شمار سکول کے لائق طلباء میں ہوتا تھا۔ صرف سات سال کی عمر میں انہوں نے عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا۔ وہ امام غزالی کی عربی و فارسی کی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔

خان شہید ( عبدالصمد خان اچکزئی) نے اپنی آدھی زندگی زندانوں میں گزاری لیکن کبھی اپنے نظریات پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ان کے ساتھیوں کو ان سے غیر لچکدار سیاسی رویے کی شکایت تھی۔ چونکہ خان شہید کو انگریز کے حربوں کا اچھی طرح علم تھا اس لیے وہ اپنی نظریاتی حدود پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں تھے چاہے انہیں کتنی بھی تکالیف کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔

وہ پہلی مرتبہ اپریل 1929 میں بیس سال کی عمر میں کوئٹہ میں گرفتار ہوئے۔ اس کے بعد 16 مئی 1930 کو انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ جولائی1930 کو سنڈےمن جرگہ ہال کوئٹہ میں انھیں دو سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔

عبدالصمد خان اچکزئی نے پہلی بار 1918 صرف بارہ سال کی عمر میں سکول سے نکالے گئے احتجاجی جلوس کی قیادت کی تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انقلابی خصوصیات بچپن سے ہی ان کے خمیر کا حصہ تھیں۔ خان شہید کی سیاسی جدوجہد کے ساتھی ان کے اخلاص اور انگریز سامراج کے خلاف بہادری سے ڈٹ جانے کی گواہی دیتے ہیں۔

عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ اتنی لمبی ہے کہ شاید اس کے لیے کتاب بھی کافی نہ ہو۔ ان کے بعد مجھے ذاتی طور پر سیاسی نظریات کے حوالے سے ان کے صاحبزادے محمود خان اچکزئی میں خان شہید کی جھلک نظر محسوس ہوئی۔ محمود خان اچکزئی کی سیاسی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے کبھی پاپولسٹ سیاست نہیں کی اور غیر جمہوری قوتوں کو کمزور کرانے کے ہر جدوجہد کا حصہ بنے۔ دوستوں کے معلومات میں اضافے کے لیے بتاتا چلوں کہ محمود خان اچکزئی، خان شہید کے فرزند ہیں۔

گاندھی کے ساتھ خان شہید کی پہلی ملاقات 1931 میں ان کے دورہ ہندوستان کے دوران ہوئی۔ خان شہید پندرہ دن تک گاندھی کے ساتھ رہے اور اسی دورے کے دوران خان شہید کی باچا خان سے بھی ملاقات ہوئی جو آنے والی سیاسی جدوجہد کے لیے کافی مفید ثابت ہوئی۔

خان شہید انگریز دور میں پانچ بار گرفتار ہوئے لیکن پاکستان بننے کے بعد انہیں چھ بار گرفتار کیا گیا۔ زندگی کے بائیس سالوں سے زیادہ عرصہ قید میں گزارنے کے باوجود اپنی سیاسی و نظریاتی جدوجہد جاری رکھی۔ خان شہید کو پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی کا اعزاز بھی حاصل ہے اور انہوں نے ایوب خان کا پورا دور جیل میں گزارا۔

محققین کے مطابق ان کو مجموعی طور پینتیس سال کی سزائیں سنائی گئیں لیکن چونکہ ان پر لگنے والے ناجائز اور قانونی طور پر کمزور ہوتے تھے اسی وجہ سے کئی مقدمات میں ملنے والی سزاؤں میں رہائی مل جاتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی خان شہید نے زندگی کا ایک بڑا حصہ اسیری میں گزارا۔

خان شہید بڑی شخصیت تھے لیکن سادہ مزاج تھے۔ بغیر محافظوں کے آزادی کے ساتھ گھومتے تھے۔ 2 دسمبر 1973 کی شب ان کے گھر میں دستی بم پھینکے گئے جس کی وجہ سے نظریاتی سیاست کا ایک اہم چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا فلسفہ آج بھی مظلوم لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp