پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے سینیئر رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اصولی طور پر سویلینز کے فوجی ٹرائلز کی حامی نہیں ہے۔ 9مئی کے ملزمان کے ٹرائل عام عدالتوں میں چلنے چاہییں۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جن لوگوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات دائر کیے گئے ہیں ان کو سویلین عدالتوں میں مقدمات چلانے کا حق ملنا چاہیے۔
ایک قابل جج کو برطرف کرنا درست نہیں تھا
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا گیا ہے تو کیا اس سے ان کو انصاف مل جائے گا؟ ایک قابل جج کو برطرف کرنا درست نہیں تھا، اس سے ان کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ تو نہیں ہو گا لیکن ان کی دلجوئی ضرور ہو گی۔
پی ٹی آئی کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ذاتی کوئی مسئلہ نہیں تھا
بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے دور حکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں علی محمد خان نے کہا کہ اس مقدمے پر عمران خان اور سابق صدر عارف علوی نے اپنا مؤقف دے دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ذاتی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
جہاں تک شوکت عزیز صدیقی کا تعلق ہے تو اس کا الزم بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر ڈالنا درست نہیں، ان کی برطرفی کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی تفصیلات دیکھنے کے بعد ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ان کی برطرفی کا الزام کس پر عائد کیا جا رہا ہے۔
شخصیات سے زیادہ اس ملک میں رولز آف لا ہونے چاہیے
علی محمد خان سے پوچھا گیا کہ آیا جن لوگوں پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات لگائے ہیں ان کے صاف و شفاف ٹرائلز ہونے چاہیں، تو جواب میں علی محمد خان کا کہنا تھا کہ شخصیات سے زیادہ اس ملک میں رولز آف لا ہونے چاہیے، اگر وہ کسی پر الزامات لگا رہے ہیں تو اس کا فیئر ٹرائل ہونا چاہیے۔
اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو وہ اس کا بھرپور دفاع کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اور جو کوئی غلط کام کرتا ہے تو اسے بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
کون لوگ تھے جو سابق وزیر اعظم کی جان لینے کے در پے تھے
انہوں نے کہا کہ جہاں تک جسٹس شوکت صدیقی کے مقدمے کی بات ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی تاریخ میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کے بعد عمران خان پرقاتلانہ حملہ تھا اور ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوری امید رکھتے ہیں کہ وہ اس تہہ تک ضرور جائیں گے کہ وہ کون لوگ تھے جو سابق وزیر اعظم کی جان لینے کے در پے تھے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کا ہی نہیں پو را نظام ہی مسئلہ بنا ہوا ہے
انہوں نے کہا کہ قوم اب اس بات کے لیے تیار نہیں ہے کہ 50 سالوں بعد کسی مقدمے کا فیصلہ سنایا جائے۔
علی محمد خان نے خیبر پختونخوا اسمبلی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ آدھا سچ نہیں بولنا چاہیے پورا سچ بولا جانا چاہیے، ایک خیبر پختونخوا اسمبلی کا ہی مسئلہ نہیں ہے، پورا نظام ہی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
سیاستدانوں کو کہوں گا، اپنا گریبان عدالتوں کے حوالے نہ کریں
قوم کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، اس وقت پوری قوم کے مینڈیٹ پر ڈاکا پڑھ چکا ہے، بشمول گورنر خیبرپختونخوا سیاستدانوں سے کہوں گا کہ وہ ہر معاملے کو عدالتوں میں کیوں لے کر جا رہے ہیں؟ سیاستدان کیوں اپنا گریبان عدالتوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔
صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانا وزیر اعلیٰ کا استحقاق ہوتا ہے
انہوں نے کہا کہ اسمبلی اجلاس طلب کرنا جس طرح وزیر اعظم کا استحقاق ہوتا ہے اسی طرح صوبے میں وزیر اعلیٰ کے پاس بھی یہی استحقاق ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کے علاوہ گورنر اسمبلی اجلاس طلب کر سکتا ہے، درست بات نہیں ہے۔
دھاندلی کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی مخالفت نہیں کی
ایک اور سوال کے جواب میں علی محمدخان نے کہا کہ ہم نے دھاندلی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کی جانب سے عدالتی کمیشن بنانے کی مخالف نہیں کی، وہ عدالتی کمیشن بنائیں اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اپنا ردعمل واضح کرے گی۔
نشستیں کوئی ’ہلاکو‘ خان کا مال غنیمت نہیں
انہوں نے کہا کہ 3 کروڑ ووٹ لینے والی جماعت کی خواتین کی نشستوں کی آپ کیسے بندر بانٹ کر سکتے ہیں، کیا ’یہ کوئی بغداد پر تاتاریوں کا حملہ تھا جس میں ہلاکو خان مال غنیمت بانٹ رہا ہے۔‘
قرض لینا اچھا بات نہیں، ہندوستان سے ہمیں طعنے ملتے ہیں
انہوں کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا کوئی اچھی بات نہیں، ہندوستان سے ہمیں طعنے ملتے ہیں، ٹیکس نیٹ ورک بڑھنا چاہیے ہم اس کے حامی ہیں، غیر ملکی اثاثے بھی پاکستان آنے چاہییں۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے اثاثے بھی پاکستان آنے چاہییں۔