حماس نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو رفح آپریشن سے نہ روکنا امریکا کو مہنگا پڑسکتا ہے، کیونکہ امریکا میں صدارتی انتخابات قریب آرہے ہیں اور صدر جوبائیڈن اسرائیلی حملے رکوانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا نیوز ویک کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کی ہٹھ دھرمی بڑھنے کے باعث امریکی صدر جو بائیڈن کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان آئندہ ہفتے ہونے والی بات چیت میں گرما گرمی بھی متوقع ہے۔
مزید پڑھیں
دوسری جانب اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ہٹھ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ساتھ دے یا نہ دے، اسرائیلی فوج رفح کے علاقے میں آپریشن ضرور کرے گی۔
نیتن یاہو نے گزشتہ روز ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے امریکا کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر تنہا بھی رفح میں داخل ہونا پڑا تو ہوں گے۔ اسرائیل غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں اپنے فوجی دستے بھیجنے کے عزم پر قائم ہے جہاں ایک ملین سے زائد فلسطینی موجود ہیں۔
دوسری طرف حماس کے سینیئر عہدیداروں نے امریکی جریدے نیوز ویک سے گفتگو میں کہا ہے کہ اسرائیلی حملے رکوانے میں ناکامی امریکی صدر جو بائیڈن کو صدارتی انتخاب میں بھاری قیمت چکانے پر مجبور کرسکتی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ جنوبی غزہ کے ہررفح میں پناہ لیے ہوئے 11 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے اور ان تک بڑے پیمانے پر امداد کی رسائی کی راہ ہموار کی جائے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے یہ بہت مشکل وقت ہے کیونکہ وہ اسرائیلی قیادت پر رفح میں آپریشن سے باز رہنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں مگر وہ ماننے کو تیار نہیں۔ ایسے میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ خوراک کی قلت دور کرنے کے حالات پیدا کرے اور لڑائی روک دے۔ جس پر اسرائیل نے بمباری ترک کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن گزشتہ روز مشرق وسطیٰ کا دورہ مکمل کرکے اسرائیل پہنچے تھے جہاں انہوں نے نیتن یاہو سے ملاقات کی جس میں غزہ سیز فائر اور انسانی امداد کی فراہمی پر بات چیت کی گئی۔
تاہم حماس اور دیگر ممالک کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکا اگر چاہے تو اسرائیل کو رفح پر حملہ کرنے سے روکنے پر مجبور کر سکتا ہے لیکن حقیقتاً امریکا یہ نہیں چاہتا ہے۔