بلوچستان سے ایوان بالا کی خالی ہونے 11 نشستوں پر تمام امیدوار بلامقابلہ ہوگئے ہیں۔ ان 11 نشستوں میں 7 جنرل، 2 ٹیکنوکریٹ اور 2 خواتین کی نشستیں شامل تھیں۔
مزید پڑھیں
بلوچستان میں تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے طے ہونے والے فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو 3، 3 نشستیں ملیں، جمعیت علما اسلام (ف) کو 2 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور نیشنل پارٹی کے حصے میں ایک ایک نشست آئی۔ آزاد حیثیت سے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے والے سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے ہیں، اس طرح بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار 11 سینیٹرز بنا کسی مقابلے کے ایوان بالا میں منتخب ہوئے۔
کس نے کاغذات نامزدگی واپس لیکر کسے جتوایا؟
الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان کے لیے مختص سینیٹ کی 11 خالی نشستوں پر انتخابات کے لیے ابتدا میں 33 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، جنرل کی 7 نشستوں کے لیے 16، ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں کے لیے 8 جبکہ خواتین کی 2 خالی نشستوں کے لیے 7 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔
بعدازاں، سیاسی جماعتوں میں ہونے والی سیاسی بیٹھکوں میں طے پائے گئے فارمولے کے تحت خواتین کی 2 خالی نشستوں پر 5 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے، جس کے بعد ن لیگ کی راحت جمالی اور پیپلز پارٹی کی حسنہ بانو بلا مقابلہ منتخب ہوئیں۔
سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بھی سینیٹر منتخب ہوگئے
گزشتہ روز سینیٹ کی جنرل نشست پر ایک امیدوار نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لیے جس کے بعد جنرل نشستوں پر منتخب ہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے آغا شاہ زیب درانی اور سیدال خان ناصر، پیپلز پارٹی کے سردار محمد عمر گورگیج، جمعیت علما اسلام کے احمد خان، آزاد امیدوار سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ، عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان، نیشنل پارٹی کے جان محمد بلیدی بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے۔
آج ٹیکنوکریٹ کے امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لیکر انتخابات سے دستبردار ہوئے جس کے بعد جمعیت علما اسلام کے مولانا عبدالواسع اور پیپلز پارٹی کے شیخ بلال احمد مندوخیل بھی بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوگئے۔
’حکومت سب کو خوش رکھنا چاہتی ہے‘
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار بنا انتخابات کے 11 سینیٹرز بلا مقابلہ ایوان بالا میں پہنچے ہیں، اسے ایک سیاہ جوڑ توڑ کہیں یا قدرت کا کرشمہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ماضی میں سینیٹ انتخابات میں امیدواروں پر کروڑوں روپے لیکر ووٹ فروخت کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں، جس سے وفاق میں صوبے کا ایک منفی تاثر پیدا ہونے لگا تھا۔ تاہم اس مرتبہ 11 سینیٹرز کا بلا مقابلہ ایوان بالا کے لیے منتخب ہونا اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ موجودہ حکومت سب کو خوش رکھنا چاہتی ہے۔