اینتھروپک کے علاوہ دیگر بڑے اداروں ٹیک ٹائٹنز مائیکروسافٹ، گوگل اور ایمیزون کی موجودگی میں چین امریکا کی مصنوعی ذہانت کی وسیع برتری حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
مزید پڑھیں
جہاں چین بنیادی زبان کے بڑے ماڈلز میں پیچھے ہے جن پراوپن اے آئی اورگوگل کے جیمنائی کا غلبہ ہے وہاں وہ میٹا لاما 1 جیسی اوپن سورس ایل ایل ایمز کا استعمال کرکے اس خلا کو ختم کر رہا ہے۔
ایڈوانسڈ چپس کی امریکی برآمد پر پابندیوں نے اس کے اے آئی کو پنپنے کے عمل کو نقصان پہنچایا لیکن ہواوے جیسی چینی مارکیٹ کی بڑی کمپنیاں چپ کی کوششوں کو تیز کر رہی ہیں اور چین کے پاس اے آئی ٹیلنٹ بھی ہے جس میں امریکا کی اے آئی انڈرگریجویٹ ڈگریوں سے تقریباً 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔
تیزی سے آگے بڑھنے والے میدان میں امریکا اور اس کے تکنیکی حریف چین کے درمیان فاصلہ بہت وسیع نظر آتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں ڈینٹن گلوبل ایڈوائزرز میں چین کے سینیئر نائب صدر اور ٹیکنالوجی پالیسی لیڈ پال ٹریولو کا کہنا ہے کہ سرکردہ چینی کمپنیاں چیٹ جی پی ٹی کے خلاف زیادہ حیثیت نہیں رکھتین اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین اس معاملے میں کتنا پیچھے ہے۔
سان فرانسسکو میں لوینیز کیپیٹل کے پارٹنر جینی ژاؤ نے کہا کہ بہت زیادہ کمپنیاں اپنے لینگویج ماڈل کو سپورٹ نہیں کر سکتیں کیوں کہ اس میں بہت سرمایہ درکار ہوتا ہے اور اس حوالے سے سلیکن ویلی یقینی طور پر اس میدان میں بہت آگے ہے۔
امریکا سرمایہ کاری کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ سی بی ان سائٹ کے مطابق پچھلے سال مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں میں عالمی سطح پر لگائے گئے 42.5 بلین ڈالر میں سے تقریباً نصف جنرل اےآئی کی فنڈنگ تھی۔ امریکا میں کارپوریٹ سرمایہ کاروں نے 1,151 سودوں میں AI سرمایہ کاری کو 31 بلین ڈالر تک پہنچا دیا جس کی قیادت اوپن اے آئی اور اینتھروپک اور انفلیکشن نے کی۔ اس کا موازنہ چین میں 68 سودوں میں 2 بلین ڈالر سے ہوتا ہے جس میں سنہ 2022 کے 377 سودوں میں 5.5 بلین ڈالر سے بڑی کمی واقع ہوئی۔ یہ زوال جزوی طور پر چین میں امریکی وینچر کی سرمایہ کاری پر پابندیوں کی وجہ سے ہے۔
’چین بنیادی ماڈلز بنانے میں پیچھے ہے‘
ایک AI سرمایہ کار روئی ما کا کہنا ہے کہ چین جنرل AI کے لیے فاؤنڈیشن ماڈلز بنانے میں بہت زیادہ نقصان میں ہے۔
لیکن جہاں چین بنیادی ماڈلز میں پیچھے ہے، جن پر اوپن اے آئی اور گوگل کے جیمنی کا غلبہ ہے، وہ میٹا کے اوپن سورس، بڑے لینگویج ماڈل لاما 1 کا استعمال کرکے اس فرق کو ختم کر رہا ہے۔
چین کے بہت سے ماڈلز مؤثر طریقے ہیں تاہم وہ معروف امریکی کمپنی اوپن اے آٗی اور اس کے ویڈیو ٹو ٹیکسٹ ماڈل سے ایک 2 سال پیچھے ہے۔
چین کے پاس آنے والے سالوں میں اے آئی کی دوڑ میں فرق پیدا کرنے کے لیے ٹیک ٹیلنٹ موجود ہے۔
پالسن انسٹی ٹیوٹ کے زیر انتظام تھنک ٹینک مارکو پولو کی ایک نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ امریکا میں 60 فیصد سرفہرست اے آئی اداروں کا گھر ہے اور اس کے مقابلے میں 57 فیصد ایلیٹ اے آئی ٹیلنٹ کے لیے امریکا اب تک سرفہرست ہے جبکہ چین کے ساتھ 12 فیصد ہے۔
انڈرگریجویٹ محقیقین میں چین امریکا سے آگے ہے
لیکن تحقیق سے پتا چلا ہے کہ چین چند دیگر اقدامات کے ذریعے امریکا سے آگے ہے۔ انڈرگریجویٹ ڈگریوں کی بنیاد پر اعلیٰ درجے کے AI محققین پیدا کرنے میں چین امریکا سے آگے ہے اور اس کے پاس یہ 47 فیصد ہے جبکہ امریکہ کے پاس یہ 18 فیصد ہے۔
مزید برآں امریکی اداروں میں کام کرنے والے اعلیٰ درجے کے اے آئی محققین میں سے 38 فیصد کا اپنا اصل ملک چین ہے جبکہ 37 فیصد امریکا سے ہے۔
کئی دیگر چینی کمپنیاں آگے بڑھ رہی ہیں جن کی مالی اعانت اس کی اپنی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں بڑے سرماریہ کاروں نے فراہم کی ہے۔ بڑی کلاؤڈ کمپنیاں جیسے کہ بیڈو اور علی بابا سوشل میڈیا پلیئرزبائٹ ڈانس اور ٹین سینٹ اور ٹیک کمپنیاں سینس ٹائم، آئی فلائی ٹیک، میگوی اور ہورائزن روبوٹکس کے ساتھ ساتھ تحقیقی ادارے سبھی اس کوشش میں مدد کر رہے ہیں۔
دریں اثنا گوگل چین کے سابق صدر کائی فو لی نے ایک اوپن سورس جنرل اے آئی ماڈل اے آئی 01 تیار کیا ہے جسے علی بابا اور ان کی فرم سینویشن وینچرز کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے۔
جب کہ چین نے اپنی آبائی چپس کی صنعت اور جدید ترین AI کی ترقی کو تیز کیا ہے، اس کی اے آئی کی ترقی جزوی طور پر اعلیٰ درجے کی اے آئی چپس کی برآمد پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے محدود ہو گئی ہے۔
سنگاپور میں ٹیک ایڈوائزری اینالائز ایشیا کے بانی اور سی ای او برنارڈ لیونگ نے کہا کہ دیسی حل تیار کرنے کی کوششوں کے باوجود، چینی اے آئی ڈویلپرز اب بھی بڑی حد تک غیر ملکی ہارڈ ویئر پر انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر امریکی کمپنیوں سے، جو کہ موجودہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں ایک خطرہ ہے۔
ٹیکنالوجی کی جدت اور قومی سلامتی کے مسائل پر امریکا اور چین کے درمیان جاری تناؤ سپر پاور ٹیک ہتھیاروں کی دوڑ میں پھنسے ہوئے دیگر مؤثر ٹیکنالوجیز کے نمونے کے بعد، جنرل اے آئی کی ترقی میں تقسیم کا باعث بن رہا ہے
جنرل اے آئی کے 2 متوازی نظام، چین اور امریکا
حساس، جدید ٹیکنالوجیز پر ضابطوں اور پابندیوں کے پیش نظر، ممکنہ نتیجہ جنرل اے آئی کے لیے 2 متوازی ماحولیاتی نظام ہیں، ایک امریکا میں اور ایک چین میں۔
چیٹ جی پی ٹی چین میں مسدود ہے جبکہ بائیڈو کا ایرنی بوٹ صرف امریکا میں مین لینڈ چینی سیل فون نمبر کے ساتھ رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ امریکی کمپنیاں چین میں نہیں جا سکتیں اور چینی کمپنیاں امریکا میں نہیں جا سکتیں۔
امریکی وزیر تجارت جینا ریمنڈو نے کہا ہے کہ اے آئی چپ کی برآمدات پر امریکی پابندیوں کا مقصد چین کو جدید چپس کے حصول یا پیداوار سے روکنا ہے۔
چین اے آئی کو بعض زمروں میں لاگو کرنے میں آگے بڑھ رہا ہے، جیسے کہ کمپیوٹر ویژن۔ چپ کی کمی بنیادی ماڈلز کی تربیت کے حوالے سے بہت اہم ہے جہاں آپ کو مخصوص چپس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایپلی کیشنز کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے۔
بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس وسیع تر جنرل اے آئی مارکیٹ کو ٹیک سے باہر آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
سروے کیے گئے 1,400 ایگزیکٹوز میں سے 60 فیصد اس انتظار میں ہیں کہ جنرل اے آئی کے ضوابط کیسے تیار ہوتے ہیں، جب کہ صرف 6 فیصد کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو جنرل اے آئی ٹولز پر تربیت دی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی پیش رفت کے بعد سنہ 2023 میں ملک کی جانب سے اے آئی پر گارڈریلز کی ریلیز، اور پھر اے آئی اور ٹیک مسائل چین کے مدنظر ہیں۔
اوپن سورس جنرل اے آئی ٹیکنالوجی جو بہت سے چینی ڈویلپرز استعمال کرتے ہیں وہ عالمی سطح پر آپس میں تعاون کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے اور اے آئی کی ترقی کے ساتھ ہی مشترکہ بصیرت کا باعث بن سکتی ہے لیکن لیونگ کا کہنا ہے کہ اوپن سورس ماڈلز کے معیار اور سیکیورٹی کے حوالے سے مسئلہ بن سکتے ہیں۔
چین اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ مواد باہر نہیں نکل رہا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ان کی کمپنیاں قیادت کریں۔
اخلاقی اور سماجی خدشات چین کے ساتھ ساتھ امریکا سمیت دیگر خطوں میں جنرل اے آئی کی ترقی میں رکاوٹ ہیں، جیسا کہ اوپن اے آئی کے مشن پر کنٹرول کی جنگ میں دیکھا جاتا ہے۔
لیونگ کے مطابق چین میں ایک اور عنصر ہے جو اے آئی رفتار کو کم کر سکتا ہے اور وہ ہے خاص طور پر ریاستی مفادات کے لیے حساس معاملات میں جنرل اے آئی ایپلی کیشنز پر کنٹرول برقرار رکھنا۔