تب میری عمر لگ بھگ 17 برس تھی۔
3 اپریل کی رات کو ہی بی بی سی کے ذریعے خبر مل چکی تھی کہ بیٹی اور اہلیہ سے صاحب کی آخری ملاقات کروا دی گئی ہے اور اب مارک ٹلی سب صحافی کسی بھی لمحے کسی بڑی خبر کے انتظار میں جیل کے صدر دروازے کے باہر منڈلا رہے ہیں۔ نیوز رومز میں اخباری ضمیمے تیار ہونے لگے۔
غالباً سندھ کے ایک دور دراز گاؤں میں مقامی گورکن اور کچھ رشتے داروں کو انتظامیہ نے رات گئے عندیہ بھی دے دیا تھا کہ قبر کھود لی جائے۔ جب صبح سی ون تھرٹی کے ذریعے تابوت جیکب آباد میں اتار کر گڑھی خدا بخش کی پرواز کے لیے تیار ہیلی کاپٹر میں رکھا گیا تب تک گاؤں میں یہ ہدایت بھی پہنچ گئی کہ کوئی جمگھٹا برداشت نہیں ہو گا۔ چند قریبی رشتے داروں کو ہی نمازِ جنازہ پڑھنے کی اجازت ہو گی اور تدفین فوری ہو گی۔
جب سب کام خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا تب کہیں لگ بھگ 2 گھنٹے بعد ریڈیو پاکستان سے مختصر سی خبر نشر کر دی گئی ’آج علی الصبح سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی‘۔
ضیا الحق کے حکم پر چند برس بعد 106 سال پرانی ڈسٹرکٹ جیل کو بھی پھانسی دے دی گئی تاکہ مرجعِ خلائق نہ بن جائے۔ (وہاں اب قیدی بیرکوں اور کال کوٹھڑیوں کی جگہ پارک، جوگنگ ٹریک، میکڈونلڈز اور ملٹی پلیکس مووی تھیٹر تلے تاریخ کی قبر ہے)۔
5 اپریل کو یہ واقعہ سب سے بڑی عالمی خبر کے طور پر شائع ہوا ۔البتہ صداقت اخبار تھا یا پھر امن۔ اس کے صفحہِ اول پر صرف لوح تھی۔ باقی جگہ پر بس سرخ چھینٹے بکھرے ہوئے تھے۔
مجھے 2 سناٹے کبھی نہ بھولیں گے۔ پہلا سناٹا 9 برس کی عمر میں 16 دسمبر 1971کے دن دیکھا تھا۔ میرے آبائی شہر رحیم یار خان کے سب بازار کھلے ہوئے تھے۔ روزمرہ زندگی بظاہر نارمل تھی۔ مگر کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ لگ رہا تھا کہ یہ انسان نہیں ہیولے ہیں یا پھر زندہ لاشیں زندگی کا کاروبار کر رہی ہیں۔
بالکل ایسا ہی منظر 4 اپریل 1979 کو بھی تھا۔ کاروبارِ زندگی رواں۔ مگر ہر شخص ایک مہیب سناٹے کی زد میں۔ کوئی کسی سے بات کرتا بھی کیا؟ کٹر سے کٹر سیاسی مخالف بھی سکتے میں تھا۔ نہ کوئی نعرہ، نہ احتجاج، نہ توڑ پھوڑ۔ فضا ہی لقوہ زدہ تھی۔
جس نتیجے پر سپریم کورٹ 45 برس بعد پہنچی وہ بات 45 برس پہلے ہی بچہ بچہ جانتا تھا کہ ملزم کو فیئر ٹرائل نہیں ملا۔ سپریم کورٹ چاہتی تو تاریخ کی درستی کی خاطر مقدمہ کھول بھی سکتی تھی۔ جیسے فرانس میں ڈریفس کا مقدمہ بہت عرصہ بعد کھول کے ناانصافی کو سیدھا کیا گیا۔ مگر عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے کے بجائے رولنگ دے کر شاید ادارہ جاتی جھینپ مٹانے کی کوشش کی۔ حالانکہ ہر فوجداری وکیل روزِ اول سے جانتا ہے کہ جب بھی کسی ملزم کو سزائے موت کا مستحق ثابت کرنا ہے تو دنیا بھر کے قانونی نظائر کے حوالے دینے ہیں سوائے بھٹو ٹرائیل کے۔
جن ججوں نے اپیل مسترد کرنے کے فیصلے پر حتمی دستخط کیے وہ خود بھی تا زندگی ان دستخطوں کا دفاع نہ کر پائے۔
جب میرے فیصلے پے کئے اس نے دستخط
میں چپ رہا کہ لمحہِ آئندہ تھا مرا
(جمال احسانی )
ذوالفقار علی بھٹو زندگی میں جتنے متنازعہ تھے۔ مرنے کے بعد اتنی ہی دیومالائی شخصیت بن گئے کہ ہر شخص نے اپنا اپنا بھٹو تراش لیا۔ گویا 4 اپریل کے بعد والا بھٹو کسی پارٹی کا سربراہ نہیں رہا بلکہ زمانی سیاست سے اوپر اٹھ گیا۔ اس بابت 3 مثالیں پیش کرنا چاہوں گا۔
پروفیسر غفور احمد پاکستان قومی اتحاد کی اس 3 رکنی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے جن سے بھٹو صاحب نے مارچ 1977 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پرتشدد تحریک کے خاتمے اور نئے انتخابات کے بارے میں مذاکرات کیے۔ معاہدہ طے پا گیا مگر فوج نے پھر بھی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بہت برس گزر گئے۔ پروفیسر صاحب مجھ جیسوں پر بھی شفقت فرماتے تھے۔ ایک دن میں نے سیدھا پوچھ لیا۔ کیا بھٹو کرپٹ تھا؟
غفور صاحب ایک منٹ تک سوچنے کے بعد بولے ’وہ طبعاً آمر تھا مگر کرپٹ نہیں تھا اور نہ ہی اقربا پرور تھا۔ ضیا الحق نے یقیناً ایک ایک دستاویز کھنگالی ہو گی۔ بھٹو کرپٹ ہوتا تو جہاں ضیا الحق نے اس کی کردار کشی کے لیے قرطاس ابیض کی 10 جلدیں شائع کیں وہاں ایک جلد کرپشن پر بھی آ جاتی۔ البتہ بھٹو کے بعد کی پیپلز پارٹی نے ان کے مزار کی مجاوری سے ہر طرح کا فائدہ خوب خوب اٹھایا‘۔
میں صرف ایک بار سنہ 2008 میں گڑھی خدا بخش گیا۔ کوئی عام سی سہہ پہر تھی۔ 2، 3 نگرانوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ مزار کے ہال میں گھومتے گھومتے اچانک میری نظر صدر دروازے پر پڑی۔ ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی دہلیز پر بیٹھے تھے۔ میں بھی دہلیز کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ سانگھڑ سے یہاں آئے ہیں۔ پچھلے ہفتے ہی شادی ہوئی ہے۔ بھٹو صاحب کی دعا لینے آئے ہیں۔
سنہ 2011 میں شمالی چترال کے قصبے مستوج جاتے ہوئےگرم چشمہ سے گزر ہوا۔ کچھ دیر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔ ایک مقامی شخص دور سے دیکھتا رہا اور پھر قریب آیا۔ السلام علیکم وعلیکم السلام ۔ کہاں سے آ رہے ہیں، کہاں جا رہے ہیں۔ میرا گھر یہ سامنے ہے۔ آپ چائے پیئں تو مجھے خوشی ہو گی۔ میں اس کے ساتھ ہو لیا۔
اس نے سامنے کھلنے والے کمرے میں بٹھا دیا اور غائب ہو گیا۔ کمرے میں 2 پرانی سی کرسیاں میز اور پلنگ کے سوا کچھ نہ تھا۔ دیوار پر بس ایک تصویر تھی۔ اس کے فریم پر ایک سوکھا سا پرانا ہار لٹک رہا تھا۔
جب میرا میزبان ٹرے میں 2 کپ چائے لایا تو باتوں باتوں میں کریدا کہ کیا آپ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ؟ کہنے لگا نہیں۔ میں کبھی کسی پارٹی میں نہیں رہا۔ ووٹ بھی زندگی میں شاید 2 بار دیا ہو۔ میں نے پوچھا کہ پھر کمرے میں صرف بھٹو صاحب کی تصویر کیوں لگا رکھی ہے۔ کہنے لگا کہ یہ 1975 میں اس گاؤں میں کچھ دیر رکا تھا۔ نہ اس سے پہلے کوئی وزیرِ اعظم آیا نہ اس کے بعد۔ اس لیے تصویر لگا رکھی ہے۔
بھٹو شاید آخری قد آور سویلین حکمران تھا۔ اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوا کہ آئندہ ایک مخصوص قد تک کا وزیرِ اعظم ہی برداشت کیا جائے گا۔ اگر اس نے طے شدہ اسکیل سے اوپر قد نکالنے کی کوشش کی تو ٹانگیں چھانٹ دی جائیں گی۔