پاک افغان تعلقات، جلد بازی پچھتاوے کا باعث بن سکتی ہے

جمعہ 5 اپریل 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نائن الیون کے بعد بتایا گیا کہ امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ نہیں دیتا تو پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے گا۔ اس کے بعد ‘سب سے پہلے پاکستان’ کا نعرہ زور و شور سے گونجنے لگا جو بعد میں پرویز مشرف کے آٹھ نو سالہ اقتدار کا منشوری نعرہ بھی بن گیا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ چیزیں پرویز مشرف کے کھاتے میں ڈالی جانے لگی۔ ہم جیسے عام فہم رکھنے والوں کے خیالات بھی مبہم ہونے لگے اور خود کو تسلی دیتے رہے کہ امریکی ہمیں اس طرح کی دھمکی نہیں دے سکتے لیکن کئی سالوں بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ 20 ارب ڈالر لینے کے باوجود پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کے بعد جس طرح ہمارے حکمرانوں کی دوڑیں لگ گئیں تھیں وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ تب اس بات پر بھی یقین ہوگیا کہ امریکہ نہ صرف دھمکی دے سکتا ہے بلکہ منٹوں میں ہماری دوڑیں بھی لگوا سکتا ہے۔

جن دنوں قطر میں مذاکرات ہورہے تھے تو اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وہ باتیں بھی کہہ جاتے تھے جو سفارتی لحاظ سے نہیں کہنی ہوتیں۔ وزیراعظم پاکستان نے یہاں تک کہہ دیا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی ٹویٹ اب بھی لوگوں کی یاد داشتیں تازہ کرتا رہتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ‘طاقتیں تمہاری ہیں، خدا ہمارا ہے’۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ کا اعلانیہ پارٹنر ہونے کے باوجود دنیا کو یہ تاثر دیا کہ ہم کس طرف کھڑے تھے۔ پشتون قوم پرستوں نے پاکستانی پالیسیوں پر ہمیشہ تنقید کی اور آنے والے کل کے نتائج سے خبردار کرنے کی کوشش کی لیکن بدلے میں ان پشتون رہنماؤں کی تذلیل کی جاتی رہی، ان کے سیاسی مفادات کو نقصان پہنچایا گیا۔

قطر مذاکرات کے دنوں میں عرض کیا تھا کہ اتنی بے صبری بھی ٹھیک نہیں ہے۔ دوسری بات یہ عرض کی تھی کہ پاکستان اپنے   بچاؤ اور مفاد میں کیا حاصل کررہا ہے؟ کیا ان پاکستانی علاقوں بالخصوص پشتون بیلٹ میں لگی آگ بجھ جائے گی جو اس وقت بدترین حالات کے شکار ہیں؟

حکمران طبقہ خود کو پاکستانیوں کے سوالات کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا۔ البتہ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید نے کابل جاکر فرمایا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اس کے بعد حالات ایسے بگڑے کہ ابھی خیبرپختونخوا میں ایسا لگ رہا ہے کہ خدانخواستہ بہت دیر ہوچکی ہے۔

26 مارچ کو خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ بشام میں چینی انجینئرز پر خودکش حملے میں پانچ چینی انجینئرز جاں بحق ہوئے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد وزیراعظم سمیت اعلیٰ حکام چینی سفارت خانے گئے اور چینی انجینئرز کی موت پر گہرے غم اور دکھ کا اظہار کیا۔ لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ چین اپنے شہریوں پر پاکستان میں ہونے والے جان لیوا حملوں پر شدید تحفظات رکھتا ہے کیونکہ اس وقت اعلیٰ چینی تحقیقاتی وفد پاکستان میں موجود ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے دیرینہ دوست کو ہم پر وہ اعتماد نہیں رہا جو کبھی ہماری دوستی کاخاصہ ہوا کرتا تھا۔

شانگلہ بشام واقعے کے حوالے سے سی ٹی ڈی کے ذرائع سے خبر چل رہی ہے کہ سازش میں ملوث دس افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مزید تفصیلات یہ بتائی جا رہی ہیں کہ ماسٹر مائنڈ حضرت بلال کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا جو کہ 14 جولائی 2021 میں داسو ڈیم کے چینی انجینئرز پر ہونے والے حملے کا بھی ماسٹر مائنڈ ہے۔ داسو حملے میں 13 چینی شہری جاں بحق ہوئے تھے۔

سی ٹی ڈی ذرائع سے سامنے آنے والی تفصیلات میں مزید بتایا گیا کہ خود کش حملہ آور کا تعلق افغانستان سے ہے اور بارود سے بھری گاڑی چمن کے راستے سمگل ہوکر شانگلا پہنچائی گئی تھی۔ ابتدائی رپورٹ پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا چینی اس طرح کی رپورٹ کے بعد مطمئن ہو جائیں گے؟

افغانستان کے حوالے سے پاکستانی ذمہ داروں کا رویہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سخت ہوتا جارہا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے یکے بعد دیگرے بیانات بھی اس سفارتی کشیدگی کا واضح ثبوت ہیں۔ لیکن یہاں بھی یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ ہم کچھ زیادہ جلدی تو نہیں کر رہے؟ کیونکہ موجودہ حالات میں ضروری نہیں کہ ہمارے مقاصد ہماری سوچ کے مطابق پورے ہوں۔

ایرانی میڈیا کے مطابق افغانستان کے لیے ایران کے خصوصی نمائندے حسن کاظمی کا کہنا ہے کہ قندھار اور ماسکو میں دہشتگردی کے ہونے والے واقعات ایک ہی مقام سے ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس مقام کا نام نہیں لیا۔ اس کے علاوہ روس نے سرکاری طور پر اس بات کا عندیہ دے دیا ہے کہ وہ افغان طالبان کو دہشتگردی کی فہرست سے نکال رہے ہیں اور روس جلد افغانستان پر لگی پابندیاں ختم کردے گا۔

کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، ہمارے لیے آگے بڑھنے اور بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف بتا چکے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

روس کی طرف سے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں آرہے ہیں جب ماسکو میں دہشتگردی کا اتنا بڑا واقع ہوا ہے اور حملہ آوروں کے افغانستان میں ٹریننگ حاصل کرنے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔

نچوڑ یہ ہے کہ کیا ہم ان تمام صف بندیوں کو نظر میں رکھ کر اپنی رفتار کچھ کم نہیں رکھ سکتے؟ میری نظر میں اس وقت روس اور چین دونوں کئی چیزوں کو امریکہ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور کیا ہم ان دونوں طاقتوں کو افغانستان کے ساتھ بننے والے نئے معاملات کے لیے قائل کر سکیں گے؟ اگر نہیں تو نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟ منفی یا مثبت؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بگڑتے ہوئے حالات میں ایک اہم تبدیلی یہ آئی ہے کہ اس وقت افغانستان کی فضاؤں میں امریکی ڈرون اڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جس سے افغانستان اور افغان عبوری حکومت میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ فرض کریں افغانستان میں کسی اعلیٰ افغان اہلکار کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ چلیں ہم ذمہ دار نہیں ہوئے لیکن کیا افغانستان اندرونی خلفشار کا شکار نہیں ہوگا؟ اگر خدانخواستہ افغانستان میں پھر سے ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو اس کے پاکستان پر بدتر معاشی حالات کے ہوتے ہوئے کیا اثرات پڑیں گے؟
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کے تازہ رپورٹ کے مطابق 2024 کی پہلی سہ ماہی میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کے 245 واقعات میں 432 افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور 370 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اگر ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں سب سے پہلے پاکستان ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت خیبرپختونخوا کے حالات حد سے زیادہ خراب ہو چکے ہیں جس پر سر جوڑ کر بیٹھنے اور سوچنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp