سگریٹ نوشی فعل ہے کردار نہیں

اتوار 7 اپریل 2024
author image

صباحت خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سگریٹ پینے والی عورتیں آوارہ اور بدکردارہوتی ہیں۔ یونیورسٹی، کالج اور نوکریوں کے بہانے گھروں سے نکلتی ہیں اورسگریٹ نوشی جیسی بے حیا حرکتیں کرتی ہیں۔ ایسے سخت جملے  سگریٹ نوش خواتین عام طور پر سنتی ہیں۔ کسی  فرد کو بھی معلوم ہو جائے کہ لڑکی یا عورت سگریٹ نوش ہے تو لوگ عجیب وغریب نظروں سے دیکھتے ہوئے بدکرداری یا آوارگی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ سگریٹ نوشی مرد کریں تو معاشرہ پلٹ کربھی نہیں دیکھتا کہ یہ عوامی جگہ پہ کھلے عام سگریٹ نوشی جیسے فعل کے مرتکب ہورہے ہیں حالانکہ اس پہ جرمانہ بھی عائد ہے۔ دوسری جانب اگر کسی خاتون  کے ہاتھ میں سگریٹ نظر بھی آ جائے تو کردار پر حملے شروع ہو جاتے ہیں۔

معاشرے میں ایک سوچ پنپ گئی ہے کہ مرد سگریٹ نوشی کریں تو پھیپھٹرے خراب ہوتے ہیں، عورت کرے تو کردار۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے میں مرد سگریٹ نوش خاتون سے بات کرنے یا تعلق قائم رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ مرد اپنی تفریح کے طور پہ تو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں مگر شادی یا رشتہ داری کے لیے سگریٹ پینے والی خواتین کو برے ترین معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی برملا یہ اظہار کرتے پائے جاتے ہیں کہ خواتین سگریٹ نوش خود کو ایلیٹ ظاہر کرنے، ماڈرن نظر آنے، بارعب دکھنے یا پھر شوخی مارنے کے لیے سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرد پھر کیوں کرتے ہیں؟

پدرشاہی معاشرے میں سگریٹ نوشی کرنے پر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی جانب سے بھی  منفی رویے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات سوالیہ نشان ہے کہ سگریٹ نوشی بد کرداری ہے تو ہمارے معاشرہ کا ہردوسرا مرد سڑکوں، بازاروں، آفس کے اندر، کیفے، ریسٹورنٹ، ہسپتالوں یہاں تک کہ گھروں کے اندر بھی کھلے عام یہ بد کرداری کرتے کیوں پایا جاتا ہے؟ کیوں مردوں کو کوئی روک نہیں سکتا کہ آپ یہاں سگریٹ مت پئیں، اس دھوئیں سے ہمارے پھیپھڑے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے بھی اظہارکیا جاتا ہے کہ سگریٹ نوشی ذاتی فعل ہے، ہمارا کردار یا خاندان کے اعلی نسل ہونے یا نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ پھر اگر کوئی خاتون سگریٹ نوشی کرے تو گھر والے، رشتے دار دوست سب برا بھلا کہہ کر اس کو بدکرداری سے لے کر عیاش تک کے سرٹیفکیٹ سے کیوں نواز دیتے ہیں؟

اگر مشاہدہ کیا جائے تو پاکستان میں خواتین سگریٹ نوشی کا رجحان رکھتی ہیں جبکہ ثقافتی اور سماجی لحاظ سے عورتوں کے سگریٹ پینے کو معیوب سمجھا جاتاہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق خواتین میں تمباکو نوشی کی شرح 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں خواتین اب بھی مردوں کی طرح کھلے عام  سگریٹ پینے سے گریز کرتی ہیں۔ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں میں بھی سگریٹ پینے والی زیادہ تر خواتین اپنی عادت کو چھپاتی پھرتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ پدرشاہی معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ یوں وہ تعلیم یافتہ ہونے اور پروفیشنل زندگی میں لوگوں کے منفی رویوں سے بچنے کے لیے چھپ کر سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔

معاشرتی ترقی کی دوڑ میں شامل پاکستان نے بھی مغربی کلچر کے انداز اپنائے ہیں۔ خاص کر شہروں میں مختلف مقامات پر سموکنگ زون بھی بنائے جا رہے ہیں۔ بڑے  شہروں میں کوئی سگریٹ پینا چاہتا ہے تو سموکنگ ایریا کا رخ کرتے ہیں جن میں خواتین کی  تعداد بھی شامل ہوتی ہے۔ یا پھر وہ شام کے اوقات میں کسی کیفے کا رخ کرتی ہیں جہاں کھانے کے ساتھ سگریٹ نوشی کے لیے محفوظ ماحول بھی میسر ہوتا ہے۔

اپنی عادت پوری کرنے کے لیے اتنی احتیاط اور اتنا اہتمام کرنے کے باوجود بھی سگریٹ نوش خواتین خود کو منفی رویوں کا شکار ہونے سے محفوظ نہیں رکھ پاتیں۔ جب وہ سگریٹ، لائیٹر، یا فلیور خریدنے جاتی ہیں تو دکاندار کے ساتھ ساتھ مرد کسٹمر بھی انہیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور کئی تو فقرہ بازی سے بھی باز نہیں آتے۔

میں خدانخواستہ سگریٹ نوشی کا دفاع کرنے کی کوشش ہر گز نہیں کر رہی۔ کچھ بھی ہو، یہ ایک نقصان دہ عادت ہے جو نہ صرف پینے والی کی صحت متاثر کرتی ہے بلکہ آس پاس کے لوگوں اور ماحول پر بھی بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ منہ، گلے، اور پھیپھڑوں کے کینسر کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی کمزور بینائی، دل کے عارضے، دماغی مسائل اور متعدد دیگر بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

میں صرف اس متعصابانہ رویے، سوچ اور عمل کی شکایت کر رہی ہوں جو سگریٹ نوش اور خواتین کے معاملے میں اختیار کیا جاتا ہے۔ بھئی ایک چیز اگر عورت کا کردار خراب کر رہی ہے تو وہی چیز مرد کا پھیپھڑا کیوں خراب کر رہی ہے؟ پھر مرد کا بھی کردار خراب کرے ناں!

لیکن یہ عورت کے خلاف یہ متعصابانہ رویہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ صدیوں سے ہمارے  معاشرے میں صنف کے مسئلے عورت تک ہی محدود ہیں۔ پڑھی لکھی، پروفیشنل خواتین ہوں یا اپنی مجبوریوں کی وجہ سے حالات کا شکار خواتین، ہراسمنٹ اور منفی رویے عمومی طور پر عورت کے حصہ میں ہی آتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ سگریٹ نوشی صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہے مگر تمباکو نوشی ایک عادت ہے، عورتیں زیادہ تر ایسے ہی اپناتی اور اسی طرح کرتی ہیں جیسا کہ مرد عام طور پر کرتے ہیں۔ مگر معاشرے میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ سگریٹ نوش خواتین ‘سپر ہیومن’ بن گئی ہیں۔ یہ بھی مردوں کی طرف سے مہر ثبت کی جاتی ہے اور اس طرح عورت جو کچھ بھی کرتی ہے، ان کا ہر قدم معاشرے میں مردوں کی عینک سے بیان ہوتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ معاشرہ عورت کی صنف کا استحصال کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ خواتین کے سگریٹ نوشی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر لطیفے بھی بنائے جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کردار نہیں ہے بلکہ یہ خواتین کے لیے ایک سٹیریو ٹائپ ہے۔ خواتین برقع میں ہوں یا جینز میں، سگریٹ نوشی کو بدکرداری کے سوا کچھ نہیں سمجھا جاتا ہے۔

پدرشاہی معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کی سگریٹ نوشی ان کی ایک عادت اور قطعی ذاتی فعل ہے جس کی ذمہ دار وہ خود ہیں۔ اس بات سے انکار بھی نہیں کہ معاشرتی رسم و رواج اور ثقافتی اقدار میں جڑے ذہن گھر میں نانی، دادای کے حقہ پینے کو ثقافتی انٹرٹینمنٹ سمجھتے ہیں جبکہ شہر میں عورت نوکری پیشہ ہو اور سگریٹ نوشی کی لت لگ جائے تو وہ ایک بدکردار عورت بن جاتی ہے۔ حالانکہ اگر سگریٹ نوشی کی وجہ سے مردوں کی صحت اور پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں تو پھر عورتوں کا کردار کیسے خراب ہو جاتا ہے؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یا تو عورتوں میں پھیپھڑے نہیں ہوتے یا مردوں میں کردار نہیں پایا جاتا. یہ فیصلہ سماج پر چھوڑتے ہیں ورنہ سگریٹ نوشی صرف ایک عادت ہے جس کے اثرات ہماری صحت پر ہوتے ہیں، اس کا مرد یا عورت کے کردار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp