برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کی گئی ہے جس سے طویل عرصہ کوویڈ میں مبتلا رہنے والے افراد کے خون میں مسلسل سوزش کے شواہد کا انکشاف ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق خون میں ملنے والے یہ اشاریے اس حالت کو سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں اور اس کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا کے ایسے مریضوں میں جو کافی بیمار تھے اور جنہیں اسپتال میں علاج کی ضرورت تھی بعض پروٹینوں کی موجودگی نے مخصوص علامات جیسے تھکاوٹ کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کوویڈ کے معمولی کیسز کا بھی جسم پر ویسا ہی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔
لانگ کوویڈ (یعنی جس میں کوویڈ انفیکشن کے بعد کم از کم 12 ہفتے علامات رہی ہوں) سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔
ایسے کیسز کی علامات میں انتہائی، تھکاوٹ سانس کی کمی محسوس کرنا، یادداشت اور ارتکاز کے مسائل، نیند کے مسائل، سونگھنے کی صلاحیت کا غائب ہوجانا اور بے چینی شامل ہیں۔
طویل مدتی علامات پیدا ہونے کے امکانات اس بات سے منسلک نہیں ہوتے کہ جب لوگ پہلی بار متاثر ہوئے تو کتنے بیمار تھے- بہت سے لوگ جن میں ہلکی علامات تھیں وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔
برطانیہ کے سب سے بڑے اور طویل کوویڈ مطالعے جس کی قیادت امپیریل کالج لندن نے کی تھی کے دوران اسپتال میں شدید کووِیڈ کے 650 مریضوں کا جائزہ لیا گیا۔
6 ماہ بعد، 426 نے کہا کہ ان کے پاس اب بھی کم از کم ایک طویل کوویڈ کی علامت ہے جبکہ 233 مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں اور طویل عرصے سے کوویڈ کے شکار افراد کے خون میں سوزشی پروٹین کے مسلسل اور فعال نمونوں کے ثبوت ملے۔
محققین کا کہنا تھا کہ خون میں ان کیمیکلز کی موجودگی جو عام طور پر اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ جسم انفیکشن سے لڑ رہا ہے اس وقت غیر معمولی حیثیت کا تھا جب وہ ابتدائی انفیکشن سے گزرے تھے۔
سنہ 2021 میں کورونا سے متاثر ہونے والی ٹریسی اب بھی مسائل سے دوچار
برڈلنگٹن سے تعلق رکھنے والی 59 سالہ ٹریسی ایونز نے سنہ 2021 کے اوائل میں کوویڈ میں مبتلا ہونے سے پہلے کیئر اسسٹنٹ اور سپورٹ ورکر کے طور پر کام کیا۔
انہوں نے 3 مہینے اسپتال میں اور 6 ہفتے انتہائی نگہداشت میں گزارے اور ان کے لیے اب بھی اس وقت کے بارے میں سوچنا تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں موت کے بہت قریب تھی اور لگ رہا تھا میں اب بچوں گی نہیں۔ وہ شدید تھکاوٹ اور دماغی تھکن اور ذہن ماؤف سا ہوجانے سمیت مسلسل علامات کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر ہیں۔
ٹریسی نے کہا کہ کوئی بھی تھوڑی سی مشقت کرلوں تو مجھے سانس نہیں آتی حتیٰ کہ میں نہا کر یا کپڑے پہن کر بھی بہت تھک جاتی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دوسروں کی مدد کے بغیر اپنا بستر تک ٹھیک نہیں کرسکتیں اور اگر وہ ایسا کرلیں تو لگتا ہے کہ کوئی میراتھن دوڑ لگا کر آئی ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے سر میں ہر وقت درد رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یوں لگتا ہے جسیے انہیں بھولنے کی بیماری بھی ہوگئی ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ بس وہ زندہ ہیں لیکن زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں۔
محکمہ صحت اور سماجی نگہداشت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ طویل کوویڈ لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر کچھ اثر ڈال سکتا ہے اس لیے ہم نے اسے بہتر طور پر سمجھنے، تحقیق کرنے اور نئے علاج کی نشاندہی کرنے کے لیے اپنے دنیا کے معروف سائنسدانوں کو 50 ملین پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم فراہم کی ہے۔