معین اختر کی پہلی اور آخری سٹیج پرفارمنس کے 10 منٹ

پیر 22 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ 6 ستمبر 1966 کا دن تھا۔ ملک میں پہلی بار یومِ دفاع منایا جا رہا تھا۔ ایک تقریب ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی کے آڈیٹوریم میں بھی سجی تھی جس میں پرفارم کرنے کی تمنا لیے ایک 16 سالہ دبلا پتلا سا نوجوان بھی گھر سے نکلا تھا۔

کھچا کھچ بھرے آڈیٹوریم میں جب یہ نوجوان سٹیج کی طرف بڑھا تو شرکاء نے جملے کسنے شروع کر دیے، ہو ہا اور ہنسی ٹھٹھے کی آوازوں سے کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دے رہی تھی۔

نوجوان اندر سے گھبرایا ضرور تھا مگر چہرے کے تاثرات سے ظاہر نہ ہونے دیا۔ مائیک تھام کر حاضرین سے پر اعتماد آواز میں مخاطب ہوا، ‘مجھے اپنی صلاحتیوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے صرف 10 منٹ دے دیں، اگر آپ کو میری پرفارمنس پسند نہ آئی تو میں فوراً سٹیج سے اتر جاؤں گا’۔

اس نے لب کھولے تو جیسے ہنسی اور قہقہوں کے منہ کھل گئے۔ محفل زعفران زار ہوگئی۔ چند لمحے قبل ٹھٹھے اڑانے والے اب ہنسی سے لوٹ پھوٹ رہے تھے۔ نوجوان لڑکے، پکی عمر کے لوگ اور بوڑھے حتیٰ کہ سنجیدہ طبع پروفیسر بھی اپنی ہنسی پر قابو نہیں کر پا رہے تھے۔ اس دبلے پتلے نوجوان نے انہیں کم عمر بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کر دیا تھا۔

یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فنکار معین اختر کی پہلی سٹیج پرفارمنس تھی۔

مزے کی بات ہے کہ معین اختر نے اپنی زندگی کی پہلی پرفارمنس کے لیے سامعین سے 10 منٹ کی درخواست کی تھی جب انہیں سننے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ یہی درخواست انہوں نے اپنی زندگی کی آخری پرفارمنس کے لیے بھی کی کہ وہ صرف 10 منٹ پرفارم کر سکیں گے۔ دونوں مرتبہ وہ 45 منٹ تک پرفارم کرتے رہے مگر سامعین کا جی نہ بھرا۔ پہلی پرفارمنس کے 10 منٹ دینے سے قبل شرکاءِ تقریب انہیں چیخ چیخ کر سٹیج سے چلے جانے کو کہہ رہے تھے، جبکہ آخری پرفارمنس کے 10 منٹ بعد حاضرین انہیں چیخ چیخ کر اپنا مظاہرہ جاری رکھنے پر زور دے رہے تھے۔

معین اختر نے سٹیج پر اپنی صلاحتیوں کا آخری بار مظاہرہ 11 مارچ 2011 کو کیا تھا جب ان کے اعزاز میں ‘دی لیجنڈ کے ساتھ ایک شام’ کے عنوان سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس پرفارمنس کے ایک ماہ بعد مسکراہٹیں بکھیرنے والے معین اختر داعی اجل کو لبیک کہہ کر اداسیاں پھیلا گئے تھے۔

معین اختر کے یادگار کردار

ساٹھ کی دہائی میں سٹیج سے اپنا کیریئر شروع کرنے والے معین اختر نے 4 دہائیوں تک فن کی خدمت کی۔ اس دوران انہوں نے ٹی وی پروگرام، ریڈیو شوز، فلم، اور تھیٹر پرفارمنس کے ساتھ ساتھ مختلف تقاریب کی میزبانی کرنے کے ریکارڈ بنائے۔

پی ٹی وی کے آغاز کے ساتھ ہی وہ اس کا حصہ بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کے بامِ عروج پر پہنچ گئے۔ انہوں نے کئی لازوال کردار نبھائے جن میں سے بہت سے ایسے ہیں جو تاحال مداحین کے اذہان پر نقش ہیں۔

ہاف پلیٹ میں مرزا

ہاف پلیٹ میں معین اختر نے خودساختہ دانشور اور کالم نگار کا کردار نبھایا جس کی وجہ شہرت اپنی بیوی (خالدہ ریاست) کے ساتھ ہر وقت کی فقرے بازی ٹھہری تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی کمزوریاں ڈھونڈتے اور فقرہ کسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ معین اختر کے کردار نے بنیادی طور پر غیر ملکی کرنسی کمانے والوں کے مقابلے میں اپنا ملک چھوڑنے سے انکار کرنے والے ادبی لوگوں کی حالت زار کی عکاسی کی تھی۔

half playt drama

روزی

پی ٹی وی پر آن ایئر ہونے والے ٹیلی پلے ‘روزی’ میں معین اختر نے لڑکی کا بہروپ کیا تھا۔ انور مقصود کے لکھے اور ساحرہ کاظمی کے ڈائریکٹ کیے گئے اس ڈرامے کی کاسٹ میں یوں تو لطیف کپاڈیہ، فضیلہ قاضی، اکبر سبحانی، اور فریحہ الطاف جیسے فنکار بھی شامل تھے، مگر اس ڈرامے کی وجہ شہرت معین اختر کا نبھایا گیا کردار ‘روزی’ ہی ہے۔

آنگن ٹیڑھا میں غائب دماغ شاعر

اگرچہ معین اختر حاضر جوابی اور مزاحیہ جملوں سے بھرپور اس ڈرامے کی ایک آدھ قسط میں ہی دکھائے گئے مگر ان کے غائب دماغ شاعر والے کردار کو بے حد پسند کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹی وی کے بعد جب یہ ڈرامہ سٹیج پر پیش کیا گیا تو معین اختر کے کردار کو اس میں بطورِ خاص شامل کیا گیا۔

سچ مچ میں سیٹھ منظور دانا والا

اس ڈرامے میں معین اختر نے ’سیٹھ منظور دانا والا‘ کا کردار ادا کیا جو ایک کنجوس مالک مکان ہیں اور اپنی بیوی سے بہت ڈرتے ہیں۔ اس ڈرامے میں ان کے ادا کیے گئے ڈائیلاگ آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔ اس ڈرامے کی مقبولیت کے پیشِ نظر اس کا سیکوئل ‘سچ مچ 2’ اور پھر اس کا سیکوئل ‘کچھ کچھ سچ مچ’ بھی بنایا گیا۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp