چرنوبل کی تباہی کا قصہ: ہمارے لیے کیا سبق پوشیدہ ہے؟

جمعہ 26 اپریل 2024
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا میں ایک ایسا علاقہ ہے جہاں 1986 تک زندگی ہنستی مسکراتی تھی لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ اب یہ علاقہ اگلے 24 ہزار برس تک زندگی کے قابل نہیں رہا۔ ماہرین کا اب تک یہی خیال ہے۔

یہ علاقہ کون سا تھا؟ کیوں یہاں سے زندگی روٹھ گئی؟ اسے منانے کی کوششیں کس قدر ہوئیں اور کس قدر کامیابی ملی؟

26 اپریل 1986  کی شب ایک بج کر تئیس منٹ پر یوکرین( اس وقت سوویت یونین) کے  ‘چرنوبل ایٹمی بجلی گھر’ کے  ری ایکٹر نمبر 4 کی پاور سپلائی منقطع کردی گئی۔ دراصل یہاں کے انجینئرز سمجھنا چاہ رہے تھے کہ  ایٹمی بجلی گھر کی بجلی بند ہوجائے تو پھر کیا ہوسکتا ہے؟

یہ ری ایکٹر کمزور تھا، شاید انجینئرز کو اس کی کمزوری کا اندازہ نہیں تھا، اگر اندازہ تھا تو وہ شاید اس کمزوری کو خطرناک نہیں سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی پاور سپلائی بند ہوئی، ری ایکٹر کو ٹھنڈا پانی فراہم کرنے والی ٹربائینز کی رفتار آہستہ ہوگئی۔ کم پانی کی وجہ سے ری ایکٹر میں بھاپ زیادہ بننے لگی، جس نے ری ایکٹر کے اندر دباؤ بڑھا دیا۔

آپریٹرز نے یہ حالت دیکھی تو فوراً  ری ایکٹر کو بند کرنے کے لیے بھاگے، تاہم اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔بھاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دباؤ نے بھک سے ری ایکٹر کی چھت اڑا دی۔

دھماکے کے نتیجے میں ادھر ہی دو افراد ہلاک ہوگئے۔ تابکاری اثرات نے وہاں کام کرنے والے 134افراد کی صحت کو شدید متاثر کیا، جن میں سے مزید 35 افراد اگلے چند مہینوں میں ہلاک ہوگئے۔ ہلاکتوں کا سلسلہ اس کے بعد بھی نہ رکا۔ اور انہی تابکاری اثرات نے مزید 19 افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اس دھماکے کے نتیجے میں تابکاری اثرات سے اردگرد کا 50 ہزار مربع ایکڑ کا علاقہ شدید متاثر ہوا۔ تابکاری مواد سے بھرپور دھواں دو کلومیٹر اوپر تک بلند ہوا۔ پھر اس نے بادلوں کی شکل اختیار کی، اور یورپ کے بعض علاقوں میں پہنچ کر لوگوں کو متاثر کیا۔ نتیجتاً لاکھوں لوگ کینسر اور سانس کی بیماریوں کے شکار ہوگئے۔

اس واقعہ کے فوراً بعد ایٹمی بجلی گھر کے اردگرد ایک ہزار مربع میل کے علاقے سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ علاقے میں منتقل کیا گیا اور علاقے میں لوگوں کے داخلے پر  مکمل پابندی عائد کردی گئی۔

چرنوبل ایٹمی بجلی گھر میں دھماکے  سے سب سے زیادہ جو قصبہ تابکاری اثرات سے متاثر ہوا، اس کا نام  ہے:’پری پیات’۔

حادثے کے وقت یہاں کی آبادی 50 ہزار تھے۔ رہائشیوں کی اوسط عمر 26 برس تھی۔ 15 پرائمری اسکولز تھے اور 5 سیکنڈری اسکولز، جن میں قریباً 10 ہزار طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

ایک اسپتال تھا اور 3 کلینکس۔ 25 چھوٹی، بڑی دکانیں تھیں، 27 چھوٹے، بڑے ہوٹل، ریستوران۔ ایک ریلوے اسٹیشن بھی تھا جبکہ  167بسیں لوگوں کو آمد و رفت کی سہولت فراہم کرتی تھیں۔

حادثے کے بعد یہ ہنستا بستا چھوٹا شہر مکمل طور پر ویران ہوگیا۔ عمارتیں سنسان اور سارا علاقہ ایک ایسے جنگل کی شکل اختیار کر گیا جہاں درختوں کے پتوں کی شکل تبدیل ہوگئی تھی، جہاں صرف جانوروں اور پرندوں ہی کا گزر بسر تھا۔ علاقے میں جنگلی جانوروں کی تعداد دیگر علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوگئی۔

اب ہر طرف بھیڑیے، بھورے ریچھ، جنگلی سور اور سیاہ گوش کثرت سے پائے جاتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے یہاں زمین پر رینگنے والے کیڑوں کا جائزہ لیا گیا تو وہ حیرت انگیز سپر پاور کے مالک نکلے۔ان کی غیر معمولی طاقت کا سبب شاید تابکاری ہی تھی۔

بعد ازاں لوگوں نے اس علاقے میں اپنی مدد آپ کے تحت واپسی کی، کچھ بستیاں آباد ہوئیں تاہم زیادہ تر علاقہ آسیب زدہ ہی رہا۔ ہر طرف ویرانی ہی رہی۔

اب تک پری پیات کا بڑا پارک بھی جھاڑ جھنکار سے بھرچکا تھا، اس میں نصب کیے گئے سارے جھولے اور دیگر تفریحی سامان بوسیدہ ہوگیا۔ اس پارک کا افتتاح یکم مئی 1986 کو ہونا تھا لیکن اس کا موقع ہی نہ مل سکا۔

اس کے بعد یہاں ویرانی ، سنسانی اور خوف کا سایہ اس قدر گہرا تھا کہ باہر کے لوگ ادھر کا رخ کرنے سے گریز کرتے رہے، یہاں سے نقل مکانی کرنے والی زیادہ تر آبادی بھی خوف کا شکار تھی، اوپر سے حکومت کی پابندیوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔

اگرچہ حادثے کے فوراً بعد اس علاقے میں صفائی کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ ہزاروں کارکنوں نے اس مہم میں حصہ لیا تاہم اب بھی زیادہ تر خوف کا بسیرا تھا، اس سے نجات حاصل کرنے کی کوئی خاص کوشش نہ کی گئی۔ البتہ 5 برس قبل یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے اس علاقےکے بارے میں تاثر بدلنے کا ایک منصوبہ بنایا۔

چنانچہ اس پورے علاقے کو دنیا بھر کے سائنس دانوں، ماحولیات کے ماہرین، تاریخ دانوں بالخصوص عام سیاحوں کے لیے پرکشش بنایا جانے لگا۔ انہیں ہر قسم کی، زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی گئیں۔ علاقے میں سرسبز و شاداب راستے بنائے گئے تاکہ اس علاقے میں آنے والوں کا سفر خوشگوار ہو۔ ندیاں اور نالے بہائے گئے۔ موبائل فون سروس کو بہتر بنایا گیا۔ اب تک یہاں آنے والوں کو تصاویر یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہ تھی لیکن اب یہ پابندی اٹھا لی گئی۔

زیلنسکی حکومت کے ان اقدامات کی بدولت ملکی اور غیرملکی سیاح متاثرہ علاقے کا رخ کرنے لگے۔ 4 فروری 2020 کو پری پیات کے لوگ ایک جگہ جمع ہوئے اور اپنے قصبے میں داخل ہوئے، اپنے اپنے گھروں میں پہنچے۔

زیلنسکی حکومت کی کوششوں کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2019 میں ایک لاکھ چار سو تئیس،  2020 میں چھتیس ہزار چار سو پچاس ، 2021 میں تہتر ہزار ایک سو  افراد جبکہ 2022 کے پہلے ایک ڈیڑھ ماہ میں ساٹھ ہزار سیاح یہاں آئے۔ اس کے بعد روس یوکرین جنگ چھڑ گئی۔ روس کی فوج نے چرنوبل والے علاقے پر قبضہ کرلیا تاہم اکتیس مارچ دو ہزار بائیس کو وہ یہاں سے نکل گئی۔ یوں یہ علاقہ دوبارہ یوکرینی فوج کے کنٹرول میں آگیا۔

اس سارے قصے میں  دنیا کی ہر قوم کے لیے بھی بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ بالخصوص جس طرح یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی اس علاقے کی تباہی کو اپنی قوت میں بدلنے کی کوشش کی، اس میں کامیابی حاصل کی۔

دانا کہتے ہیں کہ مسائل میں سے مواقع تلاش کرنے کی صلاحیت ہی کامیابی عطا کرتی ہے۔ اور جب درست لوگ مل بیٹھتے ہیں تو مسائل مواقع کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp