اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کو آڈیو لیکس کیس سے الگ کرنے سے متعلق ایف آئی اے اور پیمرا کی متفرق درخواستیں مجموعی طور پر 10 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دی ہیں۔
ڈی جی ایف آئی اے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے عدالت نے آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل طارق محمود کوذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔
مزید پڑھیں
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس سے متعلق بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواستوں پر سماعت کے دوران پیمرا، پی ٹی اے، آئی بی اور ایف آئی اے کی متفرق درخواستوں پر بھی سماعت کی۔
سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور عدالتی معاون چوہدری اعتزاز احسن بھی عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس بابر ستار نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 4 متفرق درخواستیں آئی ہیں، پہلے انہیں سن لیا جائے۔
عدالت نے درخواست دائر کرنے پر ایف آئی اے پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع ہو سکتی ہے، عدالت نے آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ انٹیلیجنس بیورو کی متفرق درخواست کس کی منظوری سے دائر ہوئی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلیجنس بیورو طارق محمود نے منظوری دی ہے، جس پر عدالت نے انہیں آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے سنجیدہ ادارے ہیں ان کی درخواستیں سن کر فیصلہ کیا جائے گا، انہوں نے درخواستیں دائر کی ہیں، اب ان کی سماعت ہوگی کہ کس نے ان کو درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اتھارٹی دی ہے، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ درخواست کا متعلقہ حصہ پڑھیں جہاں ان پر اعتراض کیا گیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے، اعتراض ہے ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے، جسٹس بابر ستار سمیت 6 ججز نے انٹیلیجنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا۔
جسٹس بابر نے کہا کہ اگر آپکی دلیل مان لی جائے تو حکومت کے خلاف کوئی کیس ہی نہیں سننا چاہیے، بعد ازاں عدالت نے پیمرا کی متفرق درخواست بھی 5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دی۔
عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ نے واضح موقف اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، عدلیہ کو الیکشن 90 روز کے اندر نہ ہونے پر اسٹینڈ لینا چاہیے تھا، اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنا ہاؤس اِن آرڈر کریں۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ وہ پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، عدالت کا کام جائز یا ناجائز قرار دینا ہے اور اس آرڈر پر عمل ہو گا، نواز شریف، مریم نواز، آصف زرداری کی آڈیوز سامنے آتی رہی ہیں، یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے ایف آئی اے کو خود سے ایکشن لینا چاہیے۔
اس موقع پر جسٹس بابر ستار نے اعتزاز صاحب کو ٹوکتے ہوئے بولے؛ آج یہیں روکتے ہیں، آپ آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کریں، اگر آپ چاہیں تو تحریری طور پر بھی اپنا بریف جمع کروا سکتے ہیں، اس ریمارکس کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی، آئندہ سماعت کی تاریخ تحریری حکمنامہ میں شامل ہوگی۔
کمرہ عدالت کے باہر میڈیا سے مختصر گفتگو میں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے آڈیو لیکس کیس میں ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کی متفرق درخواستوں کے اخراج پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے، انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انٹرا کورٹ اپیل میں وہ تو نہیں جائیں گے جنہوں نے درخواستیں دائر کی ہیں وہی بتاسکتے ہیں۔