عدلیہ میں انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی مداخلت پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے جواب پانچوں ہائیکورٹس نے اپنے جوابات اور تجاویز جمع کرائی ہیں جن میں کچھ باتیں یکساں ہیں جیسا کہ کسی بھی مداخلت اور دباؤ کا فی الفور رپورٹ کیا جانا اور عدالتی کمیٹی کا اس پر ایکشن لینا، لیکن کچھ چیزیں مختلف ہیں جن کو ہم نے اس تحریر میں جمع کیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ جس نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا مدعا اٹھایا اور جس کے بعد سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس کے جواب میں اس نے اپنی تجاویز سپریم کورٹ کو بھجوائیں۔ اس نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ من پسند عدالتی فیصلوں کے حصول کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ ہائیکورٹس پر بھی کیا جانا چاہیے جس سے بینچ سازی اور مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیے جانے کے اختیارات کا غلط استعمال روکا جاسکے۔
مزید پڑھیں
اس کے علاوہ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی معاملے کا حل نہیں، نامناسب مداخلت کی شکایات پر پارلیمانی کمیٹی متبادل فورم کے طور پر کارروائی کرسکتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تجویز دی ہے کہ ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت، ماتحت عدلیہ عدالتی امور میں مداخلت اور ڈرانے دھمکانے کی صورت میں ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے پاس اپنی شکایت کا اندراج کرا سکے جو اس پر بروقت ایکشن لے۔
یہ تجاویز اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فل کورٹ اجلاس کے بعد مرتب کیں جن کو رجسٹرار کے ذریعے سے سپریم کورٹ میں جمع کروایا گیا۔
تجاویز میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل (3)204 کے تحت ایسے رولز بنائے گی جس کے تحت عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اور عدالتی افسران کے لیے عدلیہ میں کسی بھی قسم کی مداخلت یا دباؤ کو رپورٹ کرنا لازمی بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کوڈ آف کنڈکٹ کا نفاذ ماتحت عدلیہ سمیت تمام عدالتوں پر کیا جائے۔
ججوں کی ترقی میں خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر انحصار مداخلت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، لاہور ہائی کورٹ
لاہور ہائیکورٹ نے اپنے جواب میں کہاکہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت ایک کھلا راز ہے اور ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ مداخلت روکنے کے لیے کیے گئے فیصلے بے اثر ثابت ہوئے۔ اس لیے سپریم کورٹ کو ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ اور اس کی ایجنسیوں کی زیادہ مداخلت خصوصی عدالتوں مثلاً انسداد دہشتگردی، اینٹی کرپشن اور احتساب عدالتوں میں دیکھی گئی ہے جہاں حکومت کی جانب سے ججوں کی تعیناتی اور ٹرانسفر کے ذریعے مداخلت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اس لیے خصوصی عدالتوں کے ججز کی پوسٹنگ اور ٹرانسفرز کا اختیار ہائیکورٹ کے پاس ہونا چاہیے۔ ’ججوں کی ترقی میں خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر انحصار ان اداروں کی عدلیہ میں مداخلت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس چیز پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘۔
لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ ججز اور ان کے خاندانوں کی حفاظت بہر صورت یقینی بنائی جائے، ججوں کی انتظامی افسران کے ساتھ نجی ملاقاتوں کو روکا جائے، ججز کے خلاف فضول شکایات کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں مقامی بار ایسوسی ایشنز کی مداخلت کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی اپنائی جائے۔ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور وکلا کی ججز کے ساتھ چیمبر میں ملاقاتوں کو روکا جائے۔ ایک جج کو اپنی سوشل لائف محدود رکھنی چاہیے اور سوشل میڈیا سے بھی دور رہنا چاہیے۔ ’عدالتی حدود میں خفیہ ایجنسیوں کے داخلے پر پابندی لگائی جائے۔ حساس مقدمات کی سماعت کرنے والے ججز کی نہ صرف سینیئر کی جانب سے رہنمائی کی جائے بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی تحفظ دیا جائے۔ ججوں کی تعیناتی کے لیے ایسا شفاف نظام بنایا جائے جس میں انتظامیہ کی مداخلت نہ ہو‘۔
ججوں کو افغانستان سے دھمکی آمیز کالیں آتی ہیں: پشاور ہائیکورٹ
پشاور ہائیکورٹ نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک کھلا راز ہے، سیاسی مقدمات میں ججز ایجنسیوں کی مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، کچھ ججز نے شکایات کیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کے لیے مداخلت کی، بات نہ ماننے کی صورت میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، ججز کو دھمکیاں ملنے کا معاملہ محکمہ انسداد دہشتگری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سطح پر بھی اٹھایا گیا لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، اعلیٰ عدلیہ کے جج کو ڈرانے دھمکانے سے روکنے کے لیے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہیے۔
فون ٹیپنگ کے حوالے سے بینظیر بھٹو شہید مقدمے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، سندھ ہائیکورٹ
سندھ ہائیکورٹ نے اپنے جواب اور تجاویز میں باقی مماثل تجاویز کے ساتھ ساتھ کہا ہے کہ جوڈیشل افسران کے ساتھ ہونے والی سرکاری خط و کتابت کے دوران ان کی ذاتی معلومات کو مخفی رکھنے کے حوالے سے نظام وضع کیا جائے، سندھ ہائیکورٹ نے کہاکہ آج دن تک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ججوں کی تضحیک کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ فون ٹیپنگ کے حوالے سے بینظیر بھٹو شہید مقدمے کے فیصلے اور اس میں وضع کیے گئے اصولوں پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔