پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت، پھر نگراں حکومت اور اب شہباز شریف اور اتحادیوں کے دور حکومت میں اگر کوئی بحران شدت اختیار کر گیا ہے تو وہ گندم کا بحران ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں گندم کے کم ذخیرے کے پیش نظر حکومت کی منظوری سے بڑی مقدار میں مزید گندم درآمد کی گئی۔
مزید پڑھیں
بتایا جاتا ہے کہ گندم اسکینڈل میں گندم درآمد کے لیے مجموعی طور پر 98 ارب 51 کروڑ روپے باہر بھیجے گئے، اور 6 ممالک سے گندم کے بھرے 70 جہاز منگوائے گئے، یہ اتنی گندم تھی کہ اب بھی کچھ جہاز بندرگاہ پر لنگرانداز ہیں اور لاکھوں ٹن گندم ان پر موجود ہے۔
اس وقت ملک بھر میں گندم اتنی وافر مقدار میں موجود ہے کہ جن کسانوں سے ماضی میں 40 لاکھ ٹن گندم خریدی جاتی تھی اس وقت تک ان سے حکومت نے کوئی خریداری نہیں کی ہے، اور اب گندم کا ریٹ 5 ہزار 500 روپے فی من سے کم ہو کر 3 ہزار روپے تک آ چکا ہے تاہم اب بھی مارکیٹ میں خریدار موجود نہیں۔
پاکستان میں ہر سال گندم کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، پاکستان کی گندم کی سالانہ ضرورت 2.40 ملین میٹرک ٹن ہے جبکہ جو گندم پاکستان نے درآمد کی ہے اس کے بعد پاکستان کے پاس 3.59 ملین میٹرک ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے۔
گندم اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پہلے تو کہا گیا کہ نگراں حکومت نے ضرورت نہ ہونے کے باوجود اضافی گندم درآمد کرنے کی اجازت دی، پھر کہا گیا کہ جو گندم ہے بحری جہاز جو 25 دنوں میں پاکستان پہنچتا تھا وہ 10 دنوں کے اندر اندر پاکستان پہنچ گیا، پھر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے خلاف تحقیقات کی بات کی گئی۔
تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ پی ڈی ایم حکومت میں نے بھی گندم درآمد کی اجازت دی تھی اور موجودہ حکومت نے بھی گندم درآمد کی ہے، بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف اور پھر نواز شریف نے گندم اسکینڈل کی تحقیقات کا فیصلہ کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
گندم اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق گندم بحران کی بنیاد پی ڈی ایم دور میں رکھی گئی، پی ڈی ایم دور حکومت میں 13 جولائی 2023 کو وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک طارق بشیر چیمہ نے سرکاری سطح پر 10 لاکھ ٹن گندم خریدنے کی سمری کی منظوری دی تاہم 8 اگست کو پی ڈی ایم حکومت کے آخری 2 دنوں میں اقتصادی رابطہ کمیٹی یعنی ای سی سی نے اس سمری کو مؤخر کردیا اور یوں یہ معاملہ اس وقت ٹل گیا۔
نگراں حکومت کے قیام سے قبل ہی گندم افغانستان اسمگل ہونے کے باعث ملک بھر میں گندم کی قلت کے باعث اس کے نرخ بڑھ رہے تھے، گندم کی بڑھتی قیمت کو لگام دینے کے لیے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اور ستمبر 2023 کو گندم خریداری کے لیے سمری وزیراعظم آفس بھیجی گئی جس پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بطور وزیر تحفظ خوراک دستخط کیے۔
گندم درآمد کرنے کی سمری منظوری کے لیے 12 ستمبر کو ای سی سی کو بھیجی گئی تاہم ایک مرتبہ پھر سے سمری مسترد کر دی گئی، تاہم ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد ای سی سی نے 23 اکتوبر 2023 کو گندم درآمد کرنے کی منظوری دیدی۔
ای سی سی سے منظوری کے بعد باہر ممالک سے گندم خریدنے کا عمل شروع ہوا اور 24 نومبر کو ٹریڈ کارپوریشن پاکستان نے 11 لاکھ ٹن گندم خریداری کا ٹینڈر دیا تاہم کسی نے بولی نہ دی، جس کے بعد گندم پرائیویٹ سیکٹر کو درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
دسمبر 2023 تک یوکرین اور دیگر ممالک سے 12 لاکھ ٹن گندم پاکستان آ چکی تھی اس کے باوجود وہیٹ بورڈ کے اجلاس میں مزید 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی، اس کے فوری بعد ملک بھر میں گندم آنا شروع ہوگئی اور 25 جہاز گندم لے کر پاکستان آ گئے تاہم یہ گندم پرائیویٹ پارٹیوں کی تھی۔
فلور ملز ایسوسی ایشن اور گندم درآمدکنندگان نے بیرون ملک سے گندم خریدی ہوئی تھی، تاہم فروری میں گندم درآمد کرنے کا وقت ختم ہو رہا تھا جس پر درآمدکنندگان نے کہا کہ گندم خریدی جاچکی ہے اور کچھ توسیع دی جائے، جس پر گندم کی درآمد کی تاریخ میں 31 مارچ تک کی توسیع کر دی گئی۔
عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل سے قبل 23 فروری 2024 کو وفاق نے وہیٹ بورڈ کے گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی توثیق کی، جس کے بعد گندم پاکستان آتی رہی اور موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد بھی گندم کے پاکستان پہنچنے کا سلسلہ جاری رہا۔