گلگت میں ایک خاتون گزشتہ 4 مہینوں سے پولیس اسٹیشن میں پناہ لینے پرمجبور ہے، پولیس رپورٹ کے مطابق خاتوں اپنے شوہر کے ساتھ واپس نہیں جانا چاہتی، جس کی بنا پر عدالت نے خاتون کو پناہ دینے کی خاطر پولیس اسٹیشن میں رکھا ہے ۔
مزید پڑھیں
ایسی کئی خواتین جن کا کوئی سہارا نہیں رشتہ داروں اور دوسروں کے گھروں میں اپنی زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے کوئی شیلٹر ہوم یا پناہ گاہ موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ کسی عزیز رشتہ دار کے گھر اپنی زندگی گزارنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔
گلگت بلتستان میں کوئی شیلٹر ہوم نہیں
سماجی کارکن پروین جاوید کے مطابق گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے کوئی پناہ گاہ میسر نہیں خواتین دوسروں کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنی گزر بسر کررہی ہیں۔ ’خواتین ارکانِ اسمبلی کی کارکردگی صفر ہے، جس کی وجہ سے بے سہارا خواتین اور کسی بھی مقدمہ میں ملوث خواتین کو مجبوراً پولیس اسٹیشن میں پناہ دی جاتی ہے۔‘
گلگت ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او حُسن بانو کہا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے دارالامان یا شیلٹر ہوم کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے مگر دارالامان نہ ہونے کی وجہ سے عدالت پولیس اسٹیشن کو دارالامان قرار دے کر پناہ اور سہارے کی متلاشی خواتین کو پولیس اسٹیشن میں پناہ فراہم کرنے کا حکم دیتی ہے۔
’بے گھر خواتین کی مالی مدد بھی پولیس کی ذمہ داری‘
’ان خواتین کے لیے حکومت کسی قسم کی بھی سہولت مہیا نہیں کرتی بلکہ ہمیں ان خواتین کے لیے کپڑے اور ضروری چیزیں اپنی جیب سے مہیا کرنا پڑتی ہیں، فلک نور کیس میں اسے بھی پولیس اسٹیشن میں پناہ دی گئی اور اسکے کپڑے اور دیگر ضروری اشیا پولیس خواتین نے مہیا کی تھیں، کبھی خواتین کو ہم کرایہ دے کر واپس بھیجتے ہیں۔‘
سماجی کارکن زاہدہ کے مطابق درالامان کی عمارت کافی عرصے سے التوا کا شکار ہے جس کے باعث خواتین کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ان جیسے سماجی کارکن خوش تھے کہ گلگت بلتستان کی خواتین کے لیے شیلٹر ہوم بننے جارہا ہے مگر یہاں بیت المال کے بچے منتقل ہورہے ہیں۔
’وہ خواتین جو گھروں میں مختلف مسائل کا شکار ہیں، جنہیں آرام اور پر سکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایسے ماحول میں کیسے رہیں گی، خواتین کے لیے تعمیر ہونیوالے اس ادارے کو صرف خواتین کی حد تک محدود رکھا جائے تاکہ خواتین شیلٹر ہوم میں آرام کی زندگی گزار سکیں۔‘
حکومتی مؤقف
نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کی خواتین بہت ہنر مند اور قابل ہیں، جن کے لیے ریسورس سینٹر قائم کیا گیا ہے، یہاں سےخواتین اپنے اندر موجود صلاحیتوں کے مطابق ہنر بھی سیکھیں گی اور انفامیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنا روزگار بھی کماسکیں گی۔
’میں نے گلگت بلتستان میں زیر تعمیر دارالامان کا دورہ کیا ہے، انشااللہ بہت جلد اس کی تعمیر مکمل ہوگی، جس کے لیے میں نے اپنی ذاتی طور پر بھی کوشش کی ہے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ خواتین کو پولیس اسٹیشن میں پناہ دی جاتی ہے۔‘
نیلوفر بختیار کے مطابق اس ضمن میں خواتین ارکانِ اسمبلی کے بھی نوٹس میں لایا گیا ہے کہ وہ اس اہم منصوبے پر جلد از جلد کام مکمل کرانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں تاکہ خواتین کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہوسکے۔