جسٹس عالیہ نیلم آج لاہور ہائیکورٹ کی بطور پہلی خاتون چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھائیں گی، ان کی تقریب حلف برداری گورنر ہاؤس میں ہوگی، جہاں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان ان سے عہدے کا حلف لیں گے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس عالیہ نیلم کو صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی عدالت لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس نامزد کرتے ہوئے ان کے نام کی باقاعدہ منظوری دی تھی۔
صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد وزارت قانون نے جسٹس عالیہ نیلم کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:عالیہ نیلم آج لاہورہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گی
لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس نامزد ہونیوالی جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے 1995ء میں قانون کی ڈگری حاصل کی جبکہ انہوں نے قانون کے دیگر ڈپلومے بھی حاصل کر رکھے ہیں، جسٹس عالیہ نیلم 1996ء میں بطور وکیل رجسٹرڈ ہوئیں اور 1998ء میں ہائی کورٹ جبکہ 2008ء میں سپریم کورٹ کی وکیل بنیں۔
ایک پیشہ ورانہ وکیل کے طور پر جسٹس عالیہ نیلم نے بار میں پریکٹس کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ متعدد مقدمات میں وکالت کی، جو بیشتر دیوانی قانون، فوجداری قانون، بینکنگ قانون، انسداد دہشت گردی کے قوانین سے متعلق تھے، انہوں نے 1996 سے فروری 2013 تک ٹرائل کورٹس میں تقریباً 1473 مقدمات، لاہور ہائیکورٹ میں تقریباً 850 اور سپریم کورٹ میں 2009 سے فروری 2013 تک تقریباً 91 مقدمات میں وکالت کی۔
مزید پڑھیں: کیا کوئی خاتون پہلی بار لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس بن سکتی ہے؟
آئینی، سول، فوجداری، دہشت گردی سمیت دیگر شعبوں میں پریکٹس کا تجربہ رکھنے والی 57 سالہ جسٹس عالیہ نیلم 2013ء میں لاہور ہائیکورٹ کی ایڈہاک جج کے طور پر تعینات ہوئیں اور 2015ء میں لاہور ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں، انہوں نے متعدد اہم مسائل پر متعدد رپورٹ شدہ فیصلے سنائے ہیں۔
سپریم جوڈیشنل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے کے لیے تین سب سے سینیئر ججز جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام شامل تھے، تاہم کمیشن نے اس فہرست میں بظاہر جونیئر جسٹس عالیہ نیلم کا انتخاب کیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے سب سے سینیئر جج جسٹس شجاعت علی خان اس وقت قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں، جسٹس عالیہ نیلم سینیارٹی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر تھیں، ان کی اس طرح تقرری پر خاصا حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ چیف جسٹس کی تقرری میں سینیارٹی کا اصول ہی روایت رہا ہے۔