بنگلہ دیش میں مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم، ہلاکتوں کی تعداد 130 سے تجاوز کرگئی

اتوار 21 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بنگلا دیش میں سرکاری ملازمتوں کےکوٹہ سسٹم کے خلاف طلبا کے احتجاج میں شدت آنے کے بعد احتجاج پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ سڑکوں پر فوج گشت کر رہی ہے اور امن و امان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنےکا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔آئندہ حکم تک کرفیو کل صبح 10 بجے تک نافذ رہےگا۔

خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ہفتے کے روز احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین پر فائر کھول دیا جس میں مزید ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلا دیش میں 5 روز سے جاری پُر تشدد مظاہروں میں اموات کی تعداد 130 سے تجاوز کرگئی ہے۔

احتجاج کے پہلے روز صرف پولیس میدان میں تھی لیکن پھر بارڈرگارڈ فورس کو ان کی مدد کے لیے لایا گیا، تاہم حالات قابو میں نہیں آنے پر ملک میں کرفیو نافذ کرکے فوج کو تعینات کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:بنگلا دیشی فوٹو جرنلسٹ نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کیوں واپس کی؟

ملک بھر میں انٹرنیٹ اور ٹیکسٹ میسج سروسز جمعرات سے معطل ہیں۔ اوورسیز ٹیلی فون کال سروس بھی تعطلی کا شکار ہے۔ بنگلا دیشی میڈیا کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی اپ ڈیٹ نہیں ہو رہے۔ وزیر اعظم حسینہ واجد نے بیرون ملک دورے کے منسوخ کردیے ہیں۔ ملکی صورت حال کے پیش نظر بنگلا دیشی حکومت نے اتوار اور پیر کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

بنگلادیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ کئی روز سے طلبہ کا احتجاج جاری ہے اور کوٹہ سسٹم مخالف طلبا کی پولیس اور حکمران جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ سے جھڑپیں ہو رہی ہیں۔

بنگلا دیش میں سرکاری ملازمتوں کا 56 فیصد حصہ کوٹے میں چلا جاتا ہے جس میں سے 30 فیصد سرکاری نوکریاں 1971 کی جنگ میں لڑنے والوں کے بچوں، 10 فیصد خواتین اور 10 فیصد مخصوص اضلاع کے رہائشیوں کے لیے مختص ہیں۔

مزید پڑھیں:بنگلا دیشی رکن پارلیمنٹ کی بھارت میں پراسرار موت، لاش تاحال نہیں مل سکی

بنگلا دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم 2018 میں ختم کردیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں اسی طرح کے مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ گزشتہ ماہ ہائیکورٹ نے سرکاری نوکریوں میں 1971 کی جنگ میں لڑنے والوں کے بچوں کے لیے 30 فیصد کوٹہ بحال کرنے کا فیصلہ دیا تھا جس کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

حسینہ واجد کے رواں سال مسلسل چوتھی مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے یہ سب سے بڑا مظاہرہ ہے، جس کی وجہ نوجوانوں میں بے روزگاری میں اضافہ ہے، جو 17 کروڑ کی آبادی کا قریباً پانچواں حصہ ہیں۔

حسینہ واجد نےکوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ’رضاکار‘ قرار دیا تو طلبا مزید مشتعل ہوگئے۔ واضح رہےکہ بنگلا دیش میں ’رضاکار‘ کی اصطلاح 1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں:بنگلا دیش کے سابق آرمی چیف کو امریکی پابندیوں کا سامنا کیوں؟

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے انٹرنیٹ کی معطلی اور سیکیورٹی فورسز کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ اسے تشدد اور جانی نقصان پر گہری تشویش ہے۔ وزیر خارجہ حسن محمود کے مطابق حسینہ واجد نے اسپین اور برازیل کے سفارتی دوروں کے لیے اتوار کو روانہ ہونے کا منصوبہ ترک کردیا ہے۔

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے جلاوطن قائم مقام چیئرمین طارق رحمٰن نے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے بہت سے رہنماؤں، کارکنوں اور طلبا مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مظاہرین نے ایک ٹیکسٹ پیغام میں کہا کہ پولیس نے طلبا تحریک کی معروف کوآرڈینیٹر ناہید اسلام کو ہفتہ کی رات 2 بجے گرفتار کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp