سعودی پاک تعلقات ماضی حال اور مستقبل

منگل 6 اگست 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ماضی قریب ہی نہیں بلکہ پاکستان بننے سے پہلے جب تاج برطانیہ کی ہندوستان پر حکومت تھی، ٹریس کیے جاسکتے ہیں۔تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 1940 میں ایک سعودی وفد کراچی آیا جس کا استقبال آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں نے کیا۔ بنگال میں جب قحط پڑا تو قائداعظم محمد علی جناح نے امداد کی کال دی۔ اس اپیل کے جواب میں شاہ عبدالعزیز نے ایک وفد بھیجا اور بنگال کے قحط زدہ عوام کی مدد کے لیے دس ہزار برطانوی پاؤنڈ امداد بھیجی۔

ماضی میں استوار کیے گئے یہ دوطرفہ تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتے چلے گئے۔تجارت اور ہیومن ریسورس کے علاوہ پاکستان سعودی عرب کا دفاعی لحاظ سے بھی ایک اہم اتحادی ہے۔ یہ دفاعی تعلقات بھی کئی دہائیاں پرانے ہیں۔ان تعلقات کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1960 کی دہائی سے پاکستانی فورسز کو سعودی عرب میں سیکورٹی مقاصد کے لیے تعینات کیا گیا، جنہوں نے نہ صرف اس وقت یمنی فورسز کا مقابلہ کیا بلکہ عراق ایران جنگ کے دوران بھی پاکستانی فورسز سعودی عرب میں تعینات رہیں۔ گوکہ کچھ عرصہ پہلے دونوں ممالک کے تعلقات یمن کی خانہ جنگی اور مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کی وجہ سے سردمہری کا شکار ہوئے۔جب سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دعوت دی گئی تو پاکستان نے اس اتحاد میں شمولیت پارلیمان کی منظوری سے مشروط کردی تھی تاہم پھر یہ تعلقات دوبارہ بحال ہو گئے۔

اگر ماضی قریب کو دیکھا جائے تو ایٹمی تجربے کرنے کے وقت پوری دنیا نے پاکستان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک تھا جس نے نہ صرف پاکستان کو مبارکباد کا پیغام بھیجا بلکہ ان مشکل حالات اور بین الاقوامی تنہائی کے وقت اربوں ڈالر کا آئل موخر ادائیگیوں کی صورت میں دیا۔ سعودی عرب کی طرف سے مالی تعاون ماضی سے لیکر حال تک جاری رہا۔

دونوں ممالک کے تعلقات دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ مذہبی لحاظ سے بھی بہت گہرے ہیں۔ دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک ہونے کے ناتے پاکستان کی عوام سعودی عرب کو انتہائی عقیدت اور احترام کی نظر سے دیکھتی ہے کیونکہ بطور مسلمان سعودی سرزمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے پیدائش ہے اور یہیں پر ہمارا قبلہ کعبہ۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج اور عمرے کے لیے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے جو کہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا جب تک اسلام کے نام لیوا موجود ہیں۔ پاکستانیوں کا سعودی عرب سے  مذہبی تعلق ماضی، حال اور مستقبل میں بھی اسی عقیدت اور احترام کے ساتھ جڑا رہے گا۔

مذہبی عقیدت کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کی سعودی عرب سے وابستگی معاشی لحاظ سے بھی انتہائی اہم ہے۔ لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں اور ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھجواتے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت کو اچھا خاصا سہارا ملتا ہے۔ 2023 میں پاکستانیوں نے 27 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھیجیں جن میں سے ایک اہم پورشن سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی رقوم کا ہے۔ زرمبادلہ کی صورت میں ملنے والی یہ خطیر رقم پاکستان کے معاشی معاملات میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ گوکہ ورکرز کے معاملے میں کچھ مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن دونوں ممالک کی قیادت نے ہمیشہ یہ معاملات خوش اسلوبی سے حل کیے۔

ہیومن ریسورس کے علاوہ سعودی عرب اور پاکستان اہم تجارتی پارٹنرز بھی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارت کا حجم پچھلے سال تک 5.7 ارب ڈالر کا تھا۔ پاکستان میں اگر سرمایہ کاری کے پوٹینشل کو دیکھا جائے تو یہ حجم کئی گنا مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو مزید کئی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

حال ہی میں پاکستانی میڈیا میں یہ رپورٹ کیا گیا کہ سعودی عرب پاکستان میں 60-70ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے جس میں ریکوڈک کے منصوبے کے علاوہ گوادر میں آئل ریفائنری جیسے ملٹی بلین ڈالرز کے چند میگا پراجیکٹس بھی شامل ہیں۔ حالیہ مہینوں میں سرمایہ کاری میں تعاون کے فروغ کے لیے دونوں ممالک کے وفود نے کئی دور ےکیے ہیں۔اور امید کافی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے پوٹینشل کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں یہ تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔

سعودی- پاک تعلقات کا ماضی اور حال تو تابناک رہا ہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل کیسا ہوگا؟ اگر ماضی کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے دونوں ممالک نے جس طرح کثیر جہتی تعلقات استوار کیے یہ مستقبل میں مزید مضبوط ہوں گے کیونکہ اس میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔ تاہم پاکستان کو اس حوالے سے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے مزید کچھ اقدامات کرنے چاہیے۔

دو طرفہ تجارتی تعاون کے فروغ کے لیے پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے دوستانہ ماحول فراہم کرنا پڑے گا۔ ساتھ ساتھ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ضروری ہے کیونکہ جب تک سیاسی طور پر استحکام نہیں آئے گا تب تک سعودی عرب سمیت کوئی بھی پیسہ لانے کیے تیار نہیں ہوگا۔ دوسرا سعودی عرب لیبر بھیجنے سے پہلے ورکرز کی مناسب ٹریننگ اور ان کی تربیت ضروری ہے کیونکہ اس وقت بھی خارجہ امور کی وزارت کے ریکارڈ کے مطابق سعودی عرب میں مختلف جرائم کی پاداش میں ساڑھے 9 ہزار پاکستانی قید ہیں۔

پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ یہاں حکومتیں بدلنے کے ساتھ پالیسیاں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں جبکہ سرمایہ کاری کاری کے لیے مستقل پالیسیاں ضروری ہیں۔ سعودی عرب ہو یا کوئی اور ملک تب تک پاکستان میں انویسٹ نہیں کریں گا جب تک اسے یقین نہیں ہوگا کہ چاہے کوئی بھی حکومت آئے پاکستان میں ایک ہی پالیسی رائج رہے گی۔ سعودی عرب سے تعلقات کی مضبوطی کے لیے پاکستان کو یہ اقدامات کرنے پڑیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp