خیبر پختونخوا: کونسی نان کسٹم پیڈ گاڑی کتنا ٹیکس دے کر رکھی جاسکے گی؟

بدھ 21 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبرپختونخوا کے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ نے مالاکنڈ ڈویژن  اور قبائلی اضلاع میں نان کسٹم پیڈ (این سی پی) گاڑیوں کا ڈیٹا مجتمع اور پروفائلنگ مکمل کرنے کے بعد انہیں ٹیکس کے دائرے میں لانے کے لیے اپنی تجاویز کو حتمی شکل دے دی۔

محکمے نے نگراں دور حکومت میں اپیکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں مالاکنڈ اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے این سی پی گاڑیوں کی پروفائلنگ شروع کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور اسمگلنگ کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیا کہا؟

پروفائلنگ کے دوران گاڑیوں کے مالکان کی تفصیلات، چیسس نمبر اور دیگر تفصیلات کا مکمل ڈیٹا لیا گیا اور ایف بی آر کے ڈیٹا میں بھی شامل کیا گیا تاکہ این سی پی گاڑیوں کے دہشتگردی میں استعمال کی نشاندہی سمیت رجسٹریشن کے وقت کسٹم ڈیوٹی کا تعین بھی کیا جا سکے۔

مالاکنڈ اور ضم اضلاع میں کتنی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیں؟

محکمہ ایکسائز نے صوبائی اپیکس کمیٹی کے حکم پر نے دسمبر 2023 میں پروفائلنگ کا آغاز کیا تھا جس میں مالاکنڈ ڈیثرون اور ضم قبائلی اضلاع میں مجموعی طور پر 111509 گاڑیوں کا مکمل ڈیٹا حاصل کیا گیا۔

ایکسائز دستاویز کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن میں سب سے زیادہ 74723 این سی پی گاڑیاں ہیں جن میں پرانی، چھوٹی، بڑی اور لگژری گاڑیاں شامل ہیں۔

این سی پی گاڑیاں ٹیکس کے دائرے میں لانے کی تجویز

پروفائلنگ کے بعد محکمہ ایکسائز نے ان گاڑیوں کو رجسٹریشن کے ذریعے ٹیکس کے دائرے میں لانے اور این سی پی کے تصور کو ختم کرنے کے لیے تجاویز مرتب کی ہیں جو منظوری کے لیے وفاق کو ارسال کر دی گئی ہیں۔

محکمے کے ایک افسر نے بتایا کہ مالاکنڈ اور ضم اضلاع میں بڑی تعداد میں این سی پی گاڑیاں زیر استعمال ہیں اور ان گاڑیوں کو سختی کے باوجود بھی افغانستان سے لایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: دہشتگردی میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مبینہ استعمال: کیا مالاکنڈ میں اب مکمل پابندی لگنے جارہی ہے؟

انہوں نے بتایا کہ ان گاڑیوں کو دہشتگردی کے لیے آسانی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان گاڑیوں کا ڈیٹا یا رجسٹریشن نہیں ہوتی ہے اس لیے ملزمان ان کا آسانی سے استعمال کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے این سی پی گاڑیوں کی باقائدہ حیثیت والے سلسلے کو اب مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔

کونسی گاڑی پر کتنی ڈیوٹی اور فیس؟

محکمہ ایکسائز نے پروفائلنگ کے بعد ان گاڑیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے طریقہ کار اور رجسٹریشن اور ٹیکس کے حوالے سے تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے جو وفاقی حکومت کے ساتھ شئیر کی گئی ہیں۔

محکمہ ایکسائز نے گاڑیوں کو انجن کپیسٹی کے لحاظ سے مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا ہے اور اسی حساب سے رجسٹریشن اور ٹیکس کی تجاویز دی ہیں۔

800 سی سی گاڑیاں

 تجاویز کے مطابق 800 سی سی تک انجن والی چھوٹی گاڑیوں کے لیے رجسٹریشن اور ٹیکس کی شرح کو کم رکھا گیا ہے۔ اس کیٹیگری میں رجسٹریشن فیس 15000 روپے جبکہ کسٹم ایک لاکھ روپے تجویز کیا گیا ہے۔

ایک ہزار سی سی گاڑیاں

دوسری کیٹیگری میں ایک ہزار سی سی  تک کی گاڑیوں پر 200000 روپے کسٹم ڈیوٹی کے ساتھ 20000 روپے رجسٹریشن فیس تجویز کی گئی ہے۔

1500 سی سی گاڑیاں

1500 سی سی گاڑیوں پر 60000 روپے رجسٹریشن فیس جبکہ 350000 کسٹم ڈیوٹی تجویز کی گئی ہے۔

2000 سی سی گاڑیاں

اسی طرح 2000 سی سی تک کی گاڑیوں پر محکمہ ایکسائز نے 450,000 روپے کسٹم ڈیوٹی اور 80,000 روپے رجسٹریشن فیس تجویز کی ہے۔

25000 سی سی گاڑیاں

2500 سی سی گاڑیوں پر ایک لاکھ روپے رجسٹریشن فیس جبکہ 550000 کسٹم ڈیوٹی تجویز کی گئی ہے۔

3000 سی سی اور زائد

دستاویز کے مطابق 2500 سی سی سے زائد گاڑیوں پر  2 لاکھ روپے رجسٹریشن فیس جبکہ 7 لاکھ روپے کسٹم ڈیوٹی تجویز کی گئی ہے۔

دستاویز میں لکھا ہے کہ رجسٹریشن کا عمل شروع ہوتے ہی مالکان پر لازم ہو گا کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کرالیں جس کے بعد کوئی چھوٹ نہیں ہوگی۔ این سی پی کے تصور کو مکمل ختم کیا جا رہا ہے اور ڈیوٹی کی عدم ادائیگی پر گاڑی کو قبضے میں لے لیا جائے گا۔

رجسٹریشن کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے؟

محکمہ ایکسائز کے ایک افسر نے بتایا کہ ان کو جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ مکمل ہو گیا اور پروفائلنگ کے بعد رجسٹریشن اور ٹیکس تجاویز تیار کرکے ایف بی آر کے حوالے کردی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: حکومتی کریک ڈاؤن: کیا نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اب قصہ پارینہ بن جائیں گی؟

ان کے مطابق اس پر مزید عمل درآمد وفاق کا کام اور مینڈیٹ ہے۔ انہوں نے بتایا وفاقی اداروں کو ٹیکس میں رعایت دینے پر اعتراض ہے اور ان کے مطابق مارکیٹ ریٹ پر ہی رجسٹریشن اور ٹیکس لاگو ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف ڈیل کے مطابق بھی کسی بھی شعبے کو ٹیکسوں پر خاص چھوٹ یا رعایت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا ان تمام تر رکاوٹوں کے باجود حکام این سی پی کا تصور مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس پر کام جاری ہے جبکہ حتمی منظوری کابینہ دے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp