برکس میں پاکستان کی شمولیت اور برکس کی اپنی کرنسی آنے کی خبریں

جمعہ 20 ستمبر 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برکس بظاہر ایک چھوٹا اور غیر اہم اتحاد لگتا ہے ۔ برکس کی سرگرمیاں نیوز کے حوالے سے بھی میڈیا کو زیادہ اٹریکٹ نہیں کرتیں۔ نمبر البتہ بالکل الگ کہانی سناتے ہیں۔ جی سیون کا موازنہ اگر برکس سے کریں تو پھر اس اتحاد کی اہمیت کھل کر سامنے آتی ہے۔

گلوبل جی ڈی پی میں برکس کا شیئر 36 فیصد اور جی سیون کا 30 فیصد ہے۔ آبادی کے حساب سے برکس کا شیئر 45 فیصد اور جی سیون کا 10 فیصد ہے۔ تیل کی پیداوار برکس کی 41 فیصد اور جی سیون کی 29 فیصد ہے۔ ورلڈ اکنامک گروتھ میں برکس کا حصہ 44 فیصد جبکہ جی سیون کا 20 فیصد ہے۔ جی سیون میں کینیڈا، فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان، جرمنی اور امریکا کے علاوہ یورپی یونین بھی شامل ہے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے بھی نمبر برکس کو ہی بہت آگے دکھا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:چِپ اور سیمی کنڈکٹر،ایک ایسی فیلڈ جو ہمارے لیے معیشت کی روٹھی محبوبہ منا سکتی ہے

4 ملکوں نے 2006 میں ’برک‘ ملکر قائم کیا تھا۔ برازیل، انڈیا، روس اور چین اس کے فاؤنڈنگ ممبر تھے۔ 2010 میں جنوبی افریقہ کی شمولیت سے یہ برکس ہو گیا۔ 2024 کے شروع میں 5 مزید ملک اس اتحاد میں شامل ہوئے، جس سے ارکان کی تعداد 10 ہو گئی۔ یہ نئے ممبر مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔

تھائی لینڈ اور ملائیشیا نے بھی برکس میں شمولیت کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ نومبر 2023 میں خبر آئی تھی کہ پاکستان نے اس اتحاد میں شمولیت کے لیے آفیشلی خواہش ظاہر کر دی ہے۔ اکتوبر 2023 میں روس کے ڈپٹی منسٹر آف فارن افیئر سرجی ریابکوف نے کہا تھا کہ روس میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے پہلے نئی پارٹنر اسٹیٹس کی لسٹ پر اتفاق رائے کر لیا جائے گا۔

روس اور چین برکس کے 2 اہم ممبر ملک ہیں۔ چین کی امریکا یورپ کے ساتھ ٹریڈ وار شروع ہے۔ روس یوکرین جنگ میں مصروف ہے۔ ان دونوں ملکوں پر امریکا یورپ نے پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ عالمی مالیاتی نظام، ادائیگیوں کا سسٹم اور ڈالر۔ یوکرین جنگ کے بعد چین اور روس نے بری طرح یہ محسوس کیا ہے کہ ڈالر اور عالمی مالیاتی نظام پر اثر کی وجہ سے امریکا کے پاس پابندیاں لگانے کا وسیع اختیار ہے جو کسی بھی ملک کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ڈالر گرنے اور  دنیا کی کرنسی مارکیٹ اوپر نیچے ہونے کو ہے ؟

اس وقت دنیا میں 90 فیصد لین دین ڈالر میں ہوتا ہے۔ جبکہ تیل کی خریداری 100 فیصد ڈالر میں ہوا کرتی تھی۔ اب کچھ عرصے سے تیل کی ادائیگیوں میں ڈالر کا استعمال 80 فیصد رہ گیا ہے۔ 20 فیصد ادائیگیاں ڈالر کے بغیر ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ یوکرین روس جنگ ہے۔ اس کے علاوہ چین بھی تیل کی کچھ خریداری یووان کے بدلے کر رہا ہے۔

چین کے سرکاری بیانات میں ایک جملے ’رولز کے مطابق چلائی جانے والی دنیا‘ کا استعمال زیادہ ہونے لگا ہے۔ اس جملے کے اتنے استعمال کی وجہ بھی وہ مشکلات ہی ہیں جو مالیاتی نظام اور ڈالر کی وجہ سے چین اور روس کو درپیش ہیں۔ ماہرین کا اب اندازہ ہے کہ برکس ملٹی کرنسی پیمنٹ سسٹم کا اعلان کر سکتا ہے ۔

برکس کے لیے اپنی کرنسی لانے کے لیے اتفاق رائے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ برکس میں چین اور انڈیا تجارتی حریف ہیں۔ چینی یووان برکس کرنسی کی ڈرائیونگ فورس ہوگا۔ یہ انڈیا کو قبول کرانا آسان نہیں۔ انڈیا خود بھی روس سے یوکرین جنگ کے بعد 60 ارب ڈالر مالیت کا سستا تیل خرید رہا ہے۔ اس کی ادائیگی اور پابندیوں سے بچے رہنے کا چیلنج انڈیا کو بھی درپیش ہے۔

برکس کے ممبر ملکوں کی اپنی اپنی مشکلات ہیں۔ انہی کو دیکھتے ہوئے  ماہرین کا کہنا ہے کہ برکس کی کرنسی کا انحصار سونے پر ہو سکتا ہے۔ انڈیا ، روس اور ساؤتھ افریقہ تینوں کے پاس سونے کے وافر ذخائر ہیں۔

ٹرمپ اور کملاہیرس کے حالیہ صدارتی مباحثے میں ٹرمپ نے ایک بار پھر چین پر سخت ٹیرف عائد کرنے کی بات کر دی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ چین پر 60 فیصد بلکہ 100 فیصد ٹیرف لگائے گا۔ ٹرمپ یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ ڈالر کے متبادل نظام کو اختیار کرنے والے ملکوں پر بھی 100 فیصد ٹیکس لگائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی انخلا کے 3 سال بعد، افغانستان پر دنیا کو اعتبار نہیں آیا

ٹرمپ کی یہ باتیں بہت مشتعل کرنے والی ہیں۔ اتنا ٹیرف اگر لگتا ہے تو پھر اس کو بھگتنا بھی امریکی صارف ہی نے ہے ۔ امریکا سب کچھ تو خود نہیں بناتا، باہر سے ہی خریدتا ہے۔ متبادل کرنسی کب آتی ہے یہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کرنسی کے آنے کی وجوہات بہرحال موجود ہیں۔

پاکستان کو برکس میں شامل کرنے کے لیے روسی صدر پوتین بہت محنت کر رہے ہیں۔ نقشہ دیکھیں تو پاکستان کی شمولیت سے برکس کے 4 ممبر ملکوں کی آپس میں سرحدیں بھی ملتی ہیں۔ روسی صدر ہی نے پاکستان کو نارتھ ساؤتھ کاریڈور میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ یہ کاریڈور انڈیا کے شہر ممبئی کو ایران کے راستے روسی شہر سینٹ پیٹرس برگ سے منسلک کرتا ہے۔

انڈین وزیر اعظم مودی پوتین ملاقات میں جو مشترکہ بیان جاری ہوا۔ اس کے کچھ نکات پڑھنے والے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ دہشتگردی کے خلاف کوئی ملک سیکرٹ ایجنڈا نہیں رکھے گا۔ دہشتگرد کو دہشتگرد ہی سمجھا جائے گا۔ اگر ہم غور کریں تو ریجنل شفٹ کے خدوخال دھندلے ہونے کے باوجود واضح ہونے لگتے ہیں۔ اس شفٹ میں پاکستان کے لیے امکانات ابھر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp