ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے غزہ جنگ کے خاتمے میں اقوام متحدہ کی ناکامی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اپنے بنیادی مشن میں ناکام ہو کر ایک ناکارہ ڈھانچا بن چکی ہے، اسے 5 ممالک کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، یہ کب تک فلسطینی قتل عام کو دیکھتے رہیں گے اور اس پر کب شرمندگی محسوس کریں گے؟
یہ بھی پڑھیں:ترک فوج فلسطینیوں کی مدد کے لیے اسرائیل میں داخل ہوسکتی ہے، رجب طیب اردوان
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے رجیب طیب اردوان نے کہا کہ وہ آج یہاں کسی ایسے ملک کی نمائندگی نہیں کر رہے جو علاقائی تناؤ سے دور ہو، کچھ لوگ ہمیں تنقید کا نشانہ بنائیں گے لیکن اس حقیقت کے باوجود آج ہم نسل انسانی کے اس مشترکہ روسٹرم پر سچ بولیں گے، اور کھل کر بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اقوام متحدہ، جس کی چھت تلے آج ہم یہاں جمع ہیں، دوسری جنگ عظیم، جس میں بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی عالمی استحکام، امن اور انصاف کی توقعات دوبارہ پیدا ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ تو قائم ہوا لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں میں اقوام متحدہ اپنے بنیادی مشن کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اور یہ ادارہ آہستہ آہستہ ایک ناکارہ ڈھانچا بن چکا ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان غزہ میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کی مہم کا موازنہ ’بڑے پیمانے پر قتل عام کے نیٹ ورک‘ کرتے ہوئے اسے فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں: اسرائیل ایک دہشتگرد ریاست، نیتن یاہو کا اختتام قریب ہے، ترک صدر اردوان
طیب اردوان نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ حماس سے لڑنے کے بہانے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے۔ انہوں نے نیتن یاہو کی حکومت کی حمایت کرنے والے ممالک کو بھی ان جرائم میں ملوث قرار دیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک عظیم اخلاقی زوال کی جانب اشارہ ہے۔
غزہ میں مغرب کی اقدار دم توڑ رہی ہیں
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیلی جیلوں سے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کس قسم کی بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ خواتین اور بچوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بن گیا ہے۔ غزہ میں نہ صرف بچے شہید ہو رہے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کا نظام بھی مر رہا ہے۔ مغرب جن اقدار کے دفاع کا دعویٰ کرتا ہے وہ دم توڑ رہے ہیں، سچائی دم توڑ رہی ہے اور انسانیت کی ایک منصفانہ معاشرے اور دُنیا میں رہنے کی امیدیں ایک ایک کرکے دم توڑ رہی ہیں۔
میں یہاں آپ سے دو ٹوک الفاظ میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے لوگ انسان نہیں ہیں؟ کیا فلسطین میں بچوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟
رجب طیب اردوان کا اسرائیل کے ’تخریبی منصوبے‘ کے خلاف ‘جبری اقدامات’ کا مطالبہ
ترکیہ کے صدر نے امریکا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مبینہ طور پر اسٹیج کے سامنے جنگ بندی کے لیے کام کر رہے ہیں وہ اسرائیل کو ہتھیار اور گولہ بارود بھیج رہے ہیں تاکہ وہ اپنا قتل عام جاری رکھ سکے۔ حماس نے مئی کے بعد سے بار بار جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے ، لیکن اسرائیل ’اپنے پاؤں کھینچنا‘ جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکیہ نے اسرائیل سے تجارتی تعلقات منقطع کردیے
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی دھوکا دہی کو مزید کریڈٹ نہیں دیا جانا چاہیے۔ جبری اقدامات کو ایجنڈے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے طاقت کے استعمال کی سفارش کرنے کے اختیار پر غور کیا جانا چاہیے جیسا کہ 1950 میں ‘امن کے لیے اتحاد’ سے متعلق قرارداد میں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس تباہی کے منصوبے کے خلاف کون بولتا ہے؟ فوری اور مستقل جنگ بندی قائم کی جانی چاہیے۔ یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ ضروری ہے اور انسانی امداد بلا روک ٹوک اور بلا تعطل غزہ پہنچائی جانی چاہیے۔
رجب طیب اردوان کا سلامتی کونسل سے غزہ کے معاملے پر فیصلہ کرنے کا مطالبہ
رجب طیب اردوان نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ پر جنگ کے بارے میں فیصلہ کرے اور ’اس ظلم، اس وحشیت کو روکے‘۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کے نیٹ ورک کو روکنے کے لیے آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں جو فلسطینی عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، جو قتل عام کے نیٹ ورک کا حصہ ہے اور آپ اب بھی انہیں سیاسی فائدے کے لیے اپنے ہی لوگوں اور پورے خطے کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کے لیے کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔
رجب طیب اردوان نے دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ ایک ادارے کے طورپر’مررہا ہے‘ اور ’غیر فعال‘ اور’ناکارہ ڈھانچے‘ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی انصاف کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے 5 مراعات یافتہ رکن ممالک کی مرضی پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیوں کہ غزہ کے واقعات اس کی ’سب سے بڑی اور ڈرامائی‘ مثال ہیں۔
مزید پڑھیں:اسرائیلی شہری ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے مدد مانگنے پر مجبور
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر سے مسلسل اسرائیلی حملوں میں 41 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 41 ہزار جانیں، 41 ہزار افراد، زیادہ تر بچوں اور خواتین کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا اور کوئی نہیں جانتا کہ 10 ہزار سے زیادہ افراد کہاں ہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ 172 صحافی انتہائی مشکل حالات میں اپنا کام کرنے کی کوشش میں مارے گئے اور 500 سے زیادہ طبی عملے کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ زندگیاں بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے بازاروں، خیموں اور کیمپوں کو نشانہ بنایا جہاں پناہ گزینوں کو پناہ دی گئی تھی، انہوں نے 820 مساجد اور 3 گرجا گھروں کو نشانہ بنایا جنہیں جنگ میں بھی نہیں چھونا چاہیے تھا اور انہوں نے جان بوجھ کر درجنوں اسپتالوں، درجنوں اسکولوں کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کو اقوام متحدہ کے روسٹرم سے ہی کاٹ کر رکھ دیا اور بے شرمی سے پوری دنیا کو للکارا لیکن اس وقت اقوام متحدہ میں 5 ممالک کہاں تھے؟۔
ترکیہ کے صدر نے مزید کہا کہ ترکیہ کو اپنے دوست اور برادر فلسطین کے نمائندے کو رکن ممالک میں ان کے جائز مقام پر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ تاریخی قدم فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دلانے کی راہ میں آخری موڑ ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری اور اس انسانی خاندان میں ہم سب کو فلسطینی عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو بغیر کسی تاخیر کے پورا کرنا چاہیے جو پہلے کبھی پوری نہیں کی گئیں تھیں۔