پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو گرفتار ہوئے 15 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے، اس دوران پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے مختلف اوقات اور مقامات میں 10 سے زیادہ مرتبہ احتجاج کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:800 سے زیادہ مظاہرین گرفتار، پی ٹی آئی نے احتجاج کے خاتمے کا اعلان کردیا
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے’فائنل کال‘ کے نام سے 24 نومبر کو اسلام آباد کے ’ڈی چوک‘ پر احتجاج اور دھرنے کا اعلان کیا گیا، احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے پہلی مرتبہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی متحرک نظر آئیں اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ساتھ قافلے کو لیڈ کرتی نظر آئیں۔
’فائنل کال‘ پر منگل 26 نومبر کو پی ٹی آئی کارکنان تو ’ڈی چوک‘ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تاہم پولیس اور رینجرز کے ’گرینڈ آپریشن‘ کے ذریعے پہلے ’ڈی چوک‘ اور پھر ’جناح ایونیو‘ کو خالی کرا لیا گیا، مرکزی رہنما تو ’ڈی چوک‘ پہنچے ہی نہیں وہ یہاں سے ڈیڑھ کلو میٹر دور اپنی گاڑیوں پر ہی سوار رہے اور پولیس آپریشن کے بعد فوراً گاڑیوں میں ہی فرار ہو گئے۔
مزید پڑھیں:احتجاجی حملہ آوروں کوسی سی ٹی وی ڈھونڈ نکالیں گے، وفاقی وزیرداخلہ
احتجاج کے دوران آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ بُلٹ لگنے سے متعدد کارکنان زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے بڑی تعداد میں کارکنان کو گرفتار بھی کر لیا، رات اسلام آباد کی کلیئرنس کے بعد منگل کی صبح تمام راستے کھول دیے گئے ہیں، شہر بھر میں تجارتی سرگرمیاں کا معمول کے مطابق آغاز ہو چکا ہے، دفاتر بھی کھل گئے ہیں صرف تعلیمی ادارے جمعرات تک بند ہیں جبکہ ڈی چوک یا اس کے اطراف کوئی بھی پی ٹی آئی کارکن موجودہ نہیں ہیں۔
قافلہ اسلام آباد کب اور کیسے داخل ہوا
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے ہفتہ کے روز 23 نومبر کو سندھ اور بلوچستان سے اسلام آباد کی جانب مارچ کا سلسلہ شروع کیا تھا، پیر تک تو پی ٹی آئی کا کوئی بھی کارکن ’ڈی چوک‘یا اس کے اطراف میں نہ پہنچ سکا۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی احتجاج: اسپتال میں لائے گئے جاں بحق افراد اور زخمیوں کی تعداد سامنے آ گئی
دوسری جانب اتوار 24 نومبر کو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور، عمر ایوب اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں ایک بڑا قافلہ ’ڈی چوک‘ کے لیے روانہ ہوا جو کہ تمام رکاوٹیں عبور کرتا ہوا پیر 25 نومبر کی رات اسلام آباد میں داخل ہوا۔
25 نومبر کو علی امین گنڈاپور اور ان کے قافلے نے اسلام آباد میں داخل ہو کر 26 نمبر چونگی پر قیام کیا جہاں سے اس نے صبح سویرے ’ڈی چوک‘ کی جانب پیش قدمی کی۔
کارکنان ’ڈی چوک‘ تک پہنچے
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد 26 نومبر منگل کی صبح 10 بجے سری نگر ہائی وے کے ذریعے زیرو پوائنٹ پہنچے جہاں سے انہوں نے اسلام آباد ایکسپریس وے کے ذریعے بلیو ایریا کا راستہ اپنایا اور پھر یہاں سے رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے ’ڈی چوک‘ کی جانب بڑھتے رہے۔
پی ٹی آئی کارکنوں کا فرنٹ دستہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی تمام رکاوٹیں اور کنٹینرز کو بزور بازو ہٹاتا ہوا، قافلے کے لیے راستہ بناتا رہا اور آگے جناح ایونیو سے ہوتا ہوا ’ڈی چوک‘ کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: احتجاج کی آڑ میں پرتشدد کارروائیوں میں پولیس اور رینجرز اہلکار شہید، سرکاری املاک کو نقصان
اس راستے پر پولیس، رینجرز یا کوئی اور سیکیورٹی فورس نظر نہیں آئی، اس جانب کارکنوں کو کسی بھی قسم کی مذاحمت کا سامنا نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ دوپہر ایک بجے تک بعض کارکنان اپنی منزل ’ڈی چوک‘ تک پہنچ چکے تھے،پی ٹی آئی کارکن ’ڈی چوک‘ پر موجود کنٹینرز پر چڑھ گئے۔
پی ٹی آئی قیادت کہاں تھی؟
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان چونکہ پہلے ہی اسلام آباد میں داخل ہو چکے تھے اور انہوں نے مرکزی کنٹینر اور قیادت کے لیے راستہ صاف کر رکھا تھا اس لیے قائدین کو آگے بڑھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
علی امین گنڈاپور اور بشرہ بی بی نے اسلام اباد ایکسپریس وے پر سینٹورس چوک کے سامنے کارکنان سے خطاب کیا اور کہا کہ ہماری منزل ’ڈی چوک‘ ہے اور ’ڈی چوک‘ پہنچ کر ہم نے عمران خان کی رہائی تک دھرنا دینا ہے۔
’ڈی چوک‘ میں پی ٹی آئی کارکنوں کی پہلی پسپائی
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک خاصی تعداد جب ’ڈی چوک‘ گئی تو پھر یک دم رینجرز اور پولیس حرکت میں آ گئی، آنسو گیس کے شیل اور ربڑ بلٹس فائر ہوئےجس سے کارکنان کو ’ڈی چوک‘ سے ایک سو میٹر دور پیچھے دھکیل دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرین سرکاری اسلحہ سے لیس، سی سی ٹی وی فوٹیج میں اہم انکشافات
اسلام آباد بلیوایریا اور ’ڈی چوک‘ پہنچنے کے بعد پہلی مرتبہ سہ پہر 3 بجے کارکنان کو رینجرز یا پولیس کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت پی ٹی آئی قائدین ابھی ’ڈی چوک‘ سے اڑھائی کلومیٹر دور تھے اور اپنی گاڑیوں میں سوار تھے۔
پی ٹی آئی قیادت کہاں تک پہنچ پائی
پولیس اور رینجرز کی جانب سے شیلنگ کے بعد پی ٹی آئی کارکنان ایکسپریس چوک اور چائنہ چوک تک پیچھے چلے آئے، مرکزی کنٹینر بھی وہاں تک پہنچا دیا گیا تھا تاہم شام 5 بجے تک بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور اپنی گاڑیوں میں ہی موجود رہے۔
ان کی گاڑیاں 7th ایوینیو چوک، کلثوم ہاسپٹل کے سامنے کھڑی تھیں، مرکزی قیادت گاڑیوں میں موجود تو تھی لیکن وہ آگے نہیں بڑھ رہی تھی، دوسری جانب پولیس اور رینجرز کی مظاہرین پر شیلنگ جاری تھی اور مسلسل مظاہرین کو پیچھے کی جانب جانے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔
کارکنان کا علی امین گنڈا اور دیگر سے آگے جانے کا مطالبہ
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے مرکزی قیادت علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی گاڑی کو گھیرے رکھا اور ان سے پرزور مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ اپنی گاڑی سے نکلیں اور ان کے ساتھ ’ڈی چوک‘ کی جانب بڑھیں۔
کارکنوں نے علی امین گنڈا پور اور دیگر قیادت کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ایک گھنٹے تک وہ آگے نہ بڑھے تو گاڑیوں کے شیشے توڑ کر اور گریبان پکڑ کر گاڑی سے باہر نکالیں گے۔
مزید پڑھیں:علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کارکنان کو چھوڑ کر غائب، مظاہرین مایوس
اس موقع پر پی ٹی آئی کارکن کہتے رہے کہ شیل ہم کھائیں گے، گولیاں بھی ہم کھائیں گے،آگے بھی ہم ہی رہیں گے لیکن آپ ہمارے ساتھ آگے بڑھیں اس طرح گاڑیوں میں نہ بیٹھے رہیں۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ
’ڈی چوک‘ اور اس کے اطراف کو تو پولیس اور رینجرز نے 4 بجے ہی مکمل طور پر خالی کرا لیا تھا تاہم شام 6 بجے تک پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد ایکسپریس وے، چائنہ چوک اور گلفوم ہاسپٹل کے سامنے جمع تھی جبکہ جناح ایوینیو بھی کارکنوں سے بھرا ہوا تھا، کارکن بستر بھی ہمراہ لائے تھے جبکہ کچھ لوگوں نے کھانا بنانا بھی شروع کر دیا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ کارکنان اب یہاں پر ہی دھرنا دیں گے اور یہ سلسلہ کچھ دنوں تک جاری رہے گا ۔
دوسری جانب اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ آپریشن کا فیصلہ کر چکی تھی اور وزیر اطلاعات اور وزیر داخلہ پریس کانفرنس بھی کر چکے تھے کہ ہمیں ہر صورت مظاہرین سے اس جگہ کو خالی کرانا ہے۔
کارکنان فرار، قیادت غائب
منگل کی رات 8 بجے پولیس اور رینجرز کی جانب سے دونوں اطراف سے آپریشن یعنی آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کا آغاز کیا گیا، جس کے باعث پی ٹی آئی کارکنان ملحقہ سیکٹرز میں منتشر ہو گئے تاہم وہاں پہلے سے موجود سیکیورٹی فورسز نے ان کی گرفتاری شروع کر دی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی قافلے میں شامل ہو رہا ہوں، پولیس جوان اپنی پیٹھ کا خیال رکھیں، شیر افضل مروت
عینی شاہدین کے مطابق ان سیکٹرز اور علاقوں سے تقریباً 500 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، بارش کی مانند شیلنگ کے باعث جب کارکنان ’ڈی چوک‘ سے چلے گئے تو گاڑیوں میں موجود پی ٹی آئی قیادت کو بھی راستہ ملا اور وہ وہاں سے روانہ ہو گئے اور یوں 2 سے 3 گھنٹوں میں رات 12 بجے سے پہلے جناح ایوینیو کو سینٹورس چوک تک کلیئر کرا لیا گیا۔
پولیس نے مظاہرین کو کیسے منتشر کر کے کنٹرول سنبھالا
پولیس نے پہلے سہ پہر 3 بجے ’ڈی چوک‘ کا کنٹرول سنبھالا اور پھر شام 5 بجے مظاہرین کو منتشر کر کے ایکسپریس چوک کا کنٹرول سنبھالا پھر رات 8 بجے تک کلثوم ہاسپٹل 7th ایوینیو چوک تک کا کنٹرول بھی سنبھال لیا اور بعد ازاں تمام بلیو ایریا کے علاقے اور جناح ایوینیو کو مظاہرین سے کلیئر کرا لیا گیا۔
آپریشن سے قبل جناح ایوینیو پر موجود تمام روشنیوں کو بجھا دیا گیا،انتظامیہ کی جانب سے بڑے تجارتی مراکز ایف6 میں واقع سپر مارکیٹ ایف 7 میں واقع جناح سپر مارکیٹ اور دیگر سیکٹرز میں واقع چھوٹی اور بڑی مارکٹوں اور کاروباری مراکز کو بند کرا دیا گیا۔
علی امین اور بشریٰ بی بی کی گرفتاری کی کوششیں
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے منتشر ہونے کے بعد انتظامیہ اور پولیس کی کوشش تھی کہ وہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کو کسی طرح گرفتار کر لیں کیونکہ وہاں کارکنان کی تعداد موجود نہیں تھی، گرفتار کرنا بھی اس وقت زیادہ مشکل نہ تھا، پولیس نے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کی گاڑیوں کا تعاقب بھی کیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ علی امین اور بشریٰ بی بی کی گاڑی مارگلہ روڈ کے ذریعے پیر سوہاوا، مونال ریسٹورنٹ کی طرف گئی اور پھر وہاں سے خیبر پختونخوا میں داخل ہو گئی اور یوں پی ٹی آئی قیادت اسلام آباد سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔